معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
کے سامنے بھی نرمی سے گفتگوکریں ،جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہے:{اِذھَبَا اِلَیٰ فِرعَونَ اِنَّہٗ طَغَیٰ فَقُولَا لَہٗ قَولاً لَّیِّناً لَعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ أَو یَخشَیٰ} (۱) ترجمہ:(تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ ٗاس نے توبڑی سرکشی کی ہے،اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شایدوہ سمجھ لے یاڈرجائے) خلاصہ یہ کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں یاکسی بھی معاملے میںجب نرمی وخوش اخلاقی اور وسعتِ ظرفی کارویہ اختیارکیاجائے گاتووہ معاملہ خیریت وعافیت اورخوش اسلوبی کے ساتھ طے پاجائے گا۔جبکہ اس کے برعکس بے جاسختی ودرشتی کی صورت میں وہاں مزید فساد اور بگاڑظاہرہوگا ٗمزیدالجھنیں اورپیچیدگیاں پیداہوجائیں گی۔ نیزیہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ مطلقاً نرمی بھی مقصودومطلوب نہیں ہے،کیونکہ ضرورت سے زیادہ نرمی بھی بسااوقات نقصان کاباعث بنتی ہے اوراس سے بہت سے مفاسدظاہر ہونے لگتے ہیں، لہٰذااصل مقصود’’اعتدال‘‘ہے۔ بلکہ اس بارے میں اگرغورکیاجائے تویہ بات سمجھ میں آئیگی کہ لفظ’’اعتدال‘‘ درحقیقت مأخوذہی ’’عدل‘‘سے ہے ٗجس کے معنیٰ ’’برابری‘‘کے ہیں۔لہٰذااعتدال کے معنیٰ ہی یہی ہوئے کہ ہرمعاملے میں افراط وتفریط ٗکمی اوربیشی ٗنرمی اورسختی ٗتیزی اورسستی … وغیرہ کا درمیانہ راستہ اختیارکیاجائے۔جیسے کہ مثال مشہورہے :(خَیرُ الأُمُورِ أوسَطُھَا) یعنی ہرمعاملے میں میانہ روی ہی بہترین راستہ ہے۔ (۲) ------------------------------ (۱) طٰہٰ[۴۳۔۴۴] (۲) یہاں یہ اشارہ ضروری ہے کہ مذکورہ عبارت یعنی:(خَیرُ الأُمُورِ أوسَطُھَا) کے بارے میں اگرچہ مشہوریہ ہے کہ یہ حدیث ہے۔لیکن مجھے تلاشِ بسیارکے باوجودکوئی مستندحوالہ نہیں مل سکا۔لہٰذامیں نے اسے ’’حدیث‘‘ کے طورپریہاں درج نہیں کیا۔واللہ أعلم۔