معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
والایہ انسان اب خودکوخوش نصیب تصورکرتے ہوئے اس بات پراللہ کاشکراداکرنے لگاکہ جوتاگم ہوگیاتوکیاہوا؟ الحمدللہ پاؤں توسلامت ہیں ،جوتے کاکیاہے؟ ابھی یہاں کسی دکان سے نیامل جائے گا،لیکن اگرخدانخواستہ میرے پاؤں ہی نہوتے تومیں کیاکرتا…؟ غرضیکہ اسی طرح ہرمعاملے میں انسان کویہی اندازِفکراختیارکرناچاہئے کہ میں جس نقصان سے دوچارہوگیاہوں اس سے بڑانقصان بھی توہوسکتاتھا… اس سے بڑی کوئی مصیبت بھی توآسکتی تھی… مگراللہ کاشکرہے کہ اس نے مجھے بڑی مصیبت سے محفوظ ومأمون رکھا۔ رسول اللہ ﷺکاارشادہے: (مَن أَصْبَحَ مِنکُم آمِناً فِي سِرْبِہٖ ، مُعَافیً فِي جَسَدِہٖ ، عِندَہٗ قُوتُ یَومِہٖ ، فَکَأَنَّمَا حِیزَت لَہُ الدُّنیَا بِحَذَافِیرِھَا) (۱) ترجمہ:( جس شخص کی صبح اس حال میں ہوئی کہ اسے اپنے ٹھکانے میں امن وامان میسر ہو ٗ اس کاجسم صحیح سلامت ہو ٗاس کے پاس اُس ایک دن کے کھانے کاانتظام موجودہو، گویادنیاکی تمامترنعمتیں اس کے سامنے حاضرکردی گئیں) ۔ یعنی جب انسان کوکسی قسم کاکوئی جانی یامالی خطرہ لاحق نہو،صحت وتندرستی بھی نصیب ہو، کھانے کاانتظام بھی موجودہو… توپھراسے اورکیاچاہئے…؟ مقصدیہ کہ انسان اپنے اندرقناعت کاجذبہ پیداکرے،جھوٹی تمناؤں اورخوابوں کی دنیاسے باہرآئے، سراب کے پیچھے دوڑتے رہنے سے بازآجائے،جوچیزاس کے پاس نہیں ہے اس کاغم چھوڑردے،اورجوکچھ اسے نصیب ہے اس کی نظراسی پررہے، اس پروہ راضی اور خوش رہے اوراپنے خالق ومالک کاشکرگذاربنارہے…اسی میں اس کیلئے ذہنی سکون ٗدلی ------------------------------ (۱)ابن ماجہ[۴۱۴۱]یہی حدیث ترمذی[۲۳۴۶] میں بھی مروی ہے،البتہ اس میں آخرمیں ’’بحذافیرہا‘‘کے الفاظ نہیں ہیں۔