معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
’’حدِ اعتدال‘‘کوملحوظ نہ رکھاجائے تویقیناایسی ہنسی مذاق سے اجتناب ضروری ہے،کیونکہ مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ حیاداراورباوقارہو،جبکہ ضرورت سے زیادہ ہنسی مذاق یقینا وقار کے منافی ہے۔ نیزضرورت سے زیادہ اوربے موقع ہنسی مذاق میں بعض اوقات زبان سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے کہ متکلم کواس کی اہمیت ونزاکت کااحساس نہیں ہوتا،لیکن وہی بات مخاطب کے دل میں کسی تیرکی طرح پیوست ہوجاتی ہے…!اورپھرتعلقات میں خوشگواری کی بجائے تلخی وکشیدگی کاعنصرنمایاں ہونے لگتاہے۔شاعرکہتاہے: جِراحَاتُ السِّنَانِ لَھَا الالتِیَامُ وَلایَلتَامُ مَا جَرَح اللِّسَانُ یعنی:’’نیزوں کے زخم توکبھی نہ کبھی بھرہی جاتے ہیں،لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے،بلکہ ہمیشہ تازہ ہی رہتے ہیں…‘‘۔ نیزمثال مشہورہے: لکلّ شیٔ بَذر، وبَذر العَدَاوۃ : المِزاح یعنی:’’ہرچیزکاایک بیج ہواکرتاہے،اورباہمی نفرت وعداوت کابیج ضرورت سے زیادہ ہنسی مذاق ہے‘‘۔ چنانچہ مشاہدہ یہی ہے کہ بسااوقات محض باہمی ہنسی مذاق میں اوربس کھیل ہی کھیل میں کسی کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے کہ جس کی وجہ سے اچانک صورتِ حال یکسرتبدیل ہوجاتی ہے،قہقہوں اورمسکراہٹوں سے بھرپورمحفل دیکھتے ہی دیکھتے میدانِ کارزارکانقشہ پیش کرنے لگتی ہے۔ لہٰذا’’کثرتِ مزاح‘‘یعنی ضرورت سے زیادہ فضول ہنسی مذاق سے اجتناب ضروری ہے۔ بلکہ یہ بات توخاص طورپرذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس کسی کے ساتھ جس قدرنازک اورحساس نوعیت کے تعلقات ہوں ٗاس کے ساتھ فضول ہنسی مذاق سے اسی قدر