فرماتے نہ پیچھے اور عوام میں بیٹھنے سے گرانی ہوتی اور نہ آگے تشریف رکھنے پر اپنے اعزاز کا خیال ہوتا۔
خوشی کے مواقع پرمٹھائی وغیرہ کی تقسیم یا دوست احباب اعزا واقارب کے جمع کرنے کو نہ آپ روکتے تھے اور نہ ایسے مجمع میں شرکت کرنے سے انکار فرماتے تھے لیکن منکرات یاخلاف شریعت کسی بات کو گوارا نہ فرماسکتے اوربے تکلف ٹوک دیا کرتے اگر کوئی آپ سے ملنے آتا تو آپ بڑے اخلاق ومحبت سے ملتے اور اکثر معانقہ کرتے اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ سلام کی خود ابتداء کرتے۔
جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو آواز دئیے بغیر یابے سلام کیے داخل نہ ہوتے بلکہ اس خیال سے کہ گھر میں کوئی اجنبی عورت ہویا گھر کی کوئی عورت بے تکلفانہ انداز میں بیٹھی ہو دروازے پر کھڑے ہوتے اور فرماتے کیا میں آؤں اور جب پردہ ہوجاتا تو السلام علیکم کہتے ہوئے اپنے کوٹھے پر تشریف لے جاتے، باوجود پردہ ہوجانے کے آپ اپنے منھ پر رومال ڈال کرجاتے اور پیٹھ پھیر کر بیٹھتے۔
جب بھی کسی سے کچھ کہتے تو افہام وتفہیم سے کام لیتے سخت جملہ کہنا یاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں تشدد پسند نہ فرماتے اور نہ ایسی بات کہتے کہ سننے والے یا سننے والی کا دل ٹوٹ جائے۔ عورتوں کو سمجھانے میں ان کی عقل وفہم کی رعایت کرتے اور بہت سادہ اور صاف لہجے میں بات کرتے۔
جب بھی کسی کاانتقال ہوتا تو صرف تعزیتی خط پراکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اظہار تعزیت کے لیے بنفس نفیس اس کے وارثوں کے پاس جاتے اور اس کے غم میں شرکت کرتے صبروعزیمت کی تلقین کرتے کہ اس کے زخمی دل پر مرہم کاکام کرتا۔
وعظ وتقریر کامعمول نہ تھا کبھی کبھار کسی کے اصرار پر تقریر کردیتے ورنہ عادت نہ تھی۔ آپ میں خشونت اور تقشف نہ تھا، ملنے جلنے والوں سے ہنس کربات کرتے خدام تک سے بے تکلف رہتے ان کو ہنساتے لطائف سناتے۔
ایک دعوت میں حضرت کے ہمراہ بعض مخلصین کھاناکھارہے تھے ایک صاحب تبرک کے زیادہ شوقین تھے کہ جہاںحضرت نے ایک طشتری سے ذرا سا کھاکر دوسری طشتری کی جانب توجہ کی انہوں نے حضرت کے سامنے سے جھٹ طشتری اٹھاخود کھانا شروع کردیا اورکہا حضرت کاتبرک، اسی طرح زردہ پلاؤ فرینی کئی طشتریوں پر انہوں نے ہاتھ صاف کیا آخر میں حضرت تھانوی نے دال کی طشتری بھی انہیں کے آگے سرکادی اور فرمایا دال کا تبرک بھی تو کھاؤ۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۳۴۰)
حضرت مولانا بعض دفعہ مزاح فرماتے اس سلسلہ کاایک دلچسپ واقعہ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:
’’مولوی ظفراحمد صاحب کے لڑکا کاتولد ہوا توحضرت نے فرمایا مولوی ظفر ہم نے تمہارے بچہ کاتاریخی نام سوچاہے مرغوب محمد مگر حساب کرکے تم خود دیکھ لو کتنے عدد ہوتے ہیں انہوں نے حساب لگایا اور عرض کیا حضرت آٹھ عدد زیادہ ہیں بے ساختہ فرمایا بس ’’ب‘‘ اور’’و‘‘ کو حذف کرد ’’مرغ محمد‘‘ تاریخی نام ہے لوگ اس پر ہنسنے لگے فرمایا میاں، کلب علی سے مرغ محمد بہرحال اچھاہے۔‘‘ (تذکرۃ