کے ایسی ہی شفقت کا مصداق یہ امر ہے کہ آپ کی ذات بابرکات سے مفید مفید کتابیں تصنیف ہوئیں ترجمے ہوئے اشاعت ہوئی انھیں مفید اور ضروری کتابوں میں سے ایک کتاب معروف الحکم جامع ارشادات قطب الوقت حجۃ اﷲ حضرت ابن عطا(۱)اسکندری مصنف تنویر فی اسقاط التدبیر،واقعی جو طرز روحانی تربیت واتقان معرفت کاان بزرگ کا کلام میں پایا جاتا ہے کم کسی کے کلام میں دیکھا گیا یہ کتاب بھی اپنے حسن ظاہر و جمال باہر کی وجہ سے وصف و بیان سے مستغنی ہے ،کسی کا قول ہے ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے‘‘مگر اس کے مضامین متفرق ہونے سے طالب کو پتہ نہیں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ کس باب کا ہے،شیخ علی(۲) متقی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی ترتیب و تبویب نہایت خوبی کے ساتھ کی جو النہج الاتم فی تبویب الحکم کے نام سے مشہور ہے حضرت سیدنا و مرشدنا محمود الصدر نے بنظر نفع رسانی اہل ہند کے اس ترجمے کے لئے جامع الفضل والکمال عزیز النظیر و المثال جناب مولانا خلیل احمد صاحب مدرس سابق مدرسہ اسلامیہ دیوبند مدرس حال مدرسہ اسلامیہ سہارنپور کو حکم فرمایا ۔
(۱) احمد ابن محمد بن عبدالکریم بن عطاء اللہ اسکندری تاج الدین لقب شاذلی مشرب اور مالکی مسلک ابوالفضل کنیت اور شیخ تقی سبکی کے شاگرد تھے آپ کے اساتذہ میں شیخ ابوالعباس مرسی بھی ہیں جوشیخ الطائفہ شاہ ابوالحسن شاذلی کے خاص شاگرد تھے شیخ ابن عطا ء اللہ اپنے زمانہ کے بڑے زاہد اور صاحب مرتبہ بزرگ تھے۔ ۷۰۹ھ میں انتقال کیا۔
(۲) الشیخ الامام العالم الکبیر محمدث علی ابن حسام الدین بن عبدالملک بن قاضی خاں المتقی الشاذلی المدینی الچشتی الرہانپوری ۸۸۵ھ میں پیدا ہوئے علوم ظاہری حاصل کرنے کے بعد شاہ عبدالحکیم سے بیعت ہوئے اور مجاز بنے اس کے بعد سفر کیے شیخ ابوالحسن بکری المصری الشافعی سے حدیث وتصوف حاصل کیا اور قادری شاذلی مدنی طرق میں خلافت حاصل کی بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔
مولانا نے نہایت سلیس و مطلب خیز عبارت میں ترجمہ فرمایا اور حسب ارشاد سیدنا اس احقر کو طبع کرانے کے لئے عنایت ہوا چونکہ غایت انکسار وخلوص کی وجہ سے جناب مولانا المترجم نے اس ترجمہ کا نام تک نہیں رکھا بھلا اپنا نام ظاہر کرنا تو کہاں ،اسلئے احقر نے اتمام النعم ترجمہ تبویب الحکم اس کا نام رکھدیا اور مشفقی مخلص خیر مجسم تصویر اورہمت وکرم جناب حافظ محمد ابو سعید خاں صاحب مہتمم مطبع نظامی نے باقتضاء اس خلوص کے جو حافظ صاحب موصوف کو حضرت سیدنا دام ظلہ کے حضور میں ہے اپنی عالی ہمتی سے اس کو نہایت اہتمام و تصحیح کے ساتھ طبع فرماکر مشتاقین کی آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشا ،یہ لآلیِ بے بہا اتنے غوطوں کے بعد بحر خفا سے ساحل ظہور پر آئے ہیں جو اب کبھی اس کو آویزہ گوش قبول بنانے میں پس و پیش ہوتو بجز ناقدر شناسی کے اور کیا الزام دیا جائے۔فقط کتبہ محمد اشرف علی عفی عنہ
اس ترجمہ کی اشاعت کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے حکم پر ان کے خلیفہ مجاز مولانا عبداﷲ گنگوہی نے اس کی شرح کی ہے جس کانام اکمال الشیم ہے اس کتاب میں تصوف و سلوک کے بیش قیمت موتی ہیں جیسے علم،توبہ ،اخلاص ،نماز کی حکمتیں گوشہ نشینی ،ذکر اﷲ ،فکر،زہد فقروفاقہ،ریاضت نفس،امید و بیم ،آداب دعا،صبر شکر،صحبت و ہم نشینی،طمع ،تواضع،استدراج اورادوظائف ۔قلبی واردات ۔فیض و بسط،انوار کے مراتب،عارفین کے احوال ،وعظ و نصیحت کے شرائط و آداب کے بیاں پر یہ مشتمل ہے۔