دعوت کو تسلیم نہ کرے۔ ان کو حرامی کہتے ہیں۔
۱… ’’کل مسلم یقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص۵۴۷،۵۴۸)
تمام مسلمان مجھے قبول کرتے ہیں اور میری دعوت کی تصدیق کرتے ہیں۔ مگر کنجریوں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔
۲… مولوی سعد اﷲ صاحب کے متعلق گوہر افشانی:
اذیتنی خبثا فلست بصادق
اذلم تمت بالخزی یا ابن بغائی
ترجمہ از مرزاقادیانی: بخباثت خود ایذادادی پس من صادق نیستم۔ اگر تو اے نسل بدکاراں بذلت نہ میری۔ (انجام آتھم ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص۲۸۲)
اردو ترجمہ: اے (سعد اﷲ) تو نے مجھے اپنی خباثت سے ایذا دی۔ پس میں صادق نہیں ہوں۔ اگر تو ذلت سے نہ مرے اے کنجری کے بیٹے۔
۳… ’’سعد اﷲ حرامزادہ ہے۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ ۲۲؍جولائی ۱۹۳۳ئ) مرزائی کہہ دیتے ہیں۔ ’’ذریۃ البغایا‘‘ کا معنی حرامی کنجریوں کی اولاد نہیں ہے۔ حالانکہ لغت کی کتاب سے اس کا یہی معنی ثابت ہے۔ نیز مرزاقادیانی نے اس کا معنی خود نسل بدکاراں کیا ہے۔ بلکہ اگلی عبارت ملاحظہ ہو۔ اس میں اردو میں بھی مرزائی ترجمہ کی رو سے بھی ذریۃ البغایا کا معنی خراب عورتوں کی اولاد لکھا ہے۔
۴… ’’واعلم ان کل من ہو من ولد الحلال ولیس من ذریۃ البغایا ونسل الدجال فیفعل امرا من الا مدین اما کف اللسان بعد وترک الافتراء والمین واما تالیف الرسالۃ کرسالتنا‘‘
ترجمہ از مرزاقادیانی: جاننا چاہئے ہر ایک شخص جو ولد الحلال ہے اور خراب عورتوں اور دجال کی نسل میں سے نہیں ہے۔ وہ دو باتوں میں سے ایک بات ضرور اختیار کرے گا یا تو بعد اس کے دروغگوئی اور افتراء سے باز آجائے گا یا ہمارے اس رسالہ جیسا رسالہ پیش کرے گا۔
(نورالحق ج۱ ص۱۲۳، خزائن ج۸ ص۱۶۳)
۵… ’’اگر عبداﷲ آتھم قسم نہ کھائے یا قسم کی سزا میعاد کے اندر دیکھ لے تو ہم سچے اور ہمارے الہام سچے۔ پھر بھی اگر کوئی تحکم سے ہماری تکذیب کرے اور اس معیار کی طرف متوجہ نہ ہو تو بے