بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔‘‘
(اشتہار عام مریدوں کے لئے عام ہدایت، مندرجہ اخبار الحکم مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ئ)
بالکل جھوٹ ہے۔ حضورﷺ کی کسی روایت میں یہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہے۔ مرزائیوں سے ثبوت کا مطالبہ ہے۔ ورنہ مرزاقادیانی کو کاذب مانیں۔
۵… ’’احادیث صحیحہ میں آیا تھا مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘ (ضمیمہ نصرۃ الحق ص۱۸۸، خزائن ۲۱ ص۳۵۹)
یہ بھی جھوٹ ہے۔ کسی حدیث میں چودھویں صدی میں مسیح کا آنا نہیں لکھا۔ مرزاقادیانی نے صریح کذب سے کام لیا ہے اور رسول اﷲﷺ پر افتراء باندھا ہے۔
۶… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’تین ہزار یا اس سے زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیشین گوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں۔ پوری ہوچکی ہیں۔‘‘
(حقیقت المہدی ص۱۵، خزائن ج۱۴ ص۴۴۱)
یاد رہے حقیقت المہدی کے آخر میں لکھا ہوا ہے۔ ۲۱؍فروری ۱۸۹۹ء
پھر مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’پس میں جب اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشین گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف صاف طور پر پوری ہوگئیں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰) یاد رہے یہ رسالہ ۱۹۰۱ء میں لکھا ہے۔ یعنی مرزاقادیانی کی پیشین گوئیاں ۱۸۹۹ء میں تین ہزار سے زیادہ تھیں۔ دو سال بعد یعنی ۱۹۰۱ء میں مزید ترقی کر کے ۱۵۰رہ گئیں۔ بہت ترقی ہوئی۔ صرف اٹھائیس سو پچاس (۲۸۵۰) کا خسارہ ہوا کوئی زیادہ نہیں ہے۔ مرزاقادیانی کا یہ صریح جھوٹ ہے۔ اگر دو سال پہلے تین ہزار تھی تو بعد میں ڈیڑھ سو رہ گئی۔
بس ایک زٹلی کی طرح جو جی میں آیا اسے فوراً بلاتأمل صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا اور بعد میں تاویل پر کمر بستہ ہوگئے۔ مگر خدا کی شان۔ بعض ایسے جھوٹ بھی تھے جن پر کسی طرح تاویل نہ ہوسکتی تھی۔ چنانچہ اس بارہ میں مرزائی امت ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی مصداق ہے۔
یہ جھوٹ جو نمونہ کے طور پر میں نے مرزاقادیانی کی کتاب سے نقل کئے ہیں۔ اگر کوئی مرزائی جواب باصواب دے کر مرزاقادیانی کا حق نمک ادا کر دے تو مرزاقادیانی غالباً اس جہاں میں بھی ممنون ہوں اور ہم بھی قدرے ممنون ہوں گے۔