چونکہ ایسی کوئی پیشین گوئی پہلے سے نہ تھی۔ غالب گمان یہ تھا کہ ہوسکتا ہے عنقریب کوئی اور زلزلہ آجائے۔ اس لئے یہ پیشین گوئی گھڑی پھر اس میں تذبذب کا یہ عالم کہ زلزلہ قیامت کے زلزلہ کی طرح ہوگا۔ پھر کہہ دیا کہ عنقریب ہوگا یا بعید کچھ معلوم نہیں چند دنوں بعد ہوگا یا مہینوں بعد ہوگا۔ سالوں بعد ہوگا یا قریب یا بعید۔
اب یہ پیشین گوئی رہی یا تخمینہ۔ اب اگر ایک ہزار سال بھی نہ آئے تو جناب سچے تھے۔ مرزاقادیانی نے سوچا آجائے تو پھر گھر گھی کے چراغ جلیں گے… ہمارے نزدیک یہ تردد مرزاقادیانی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے۔
مرزاقادیانی (ضرورۃ الامام ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں امام الزمان ہوں۔ امام الزمان کی پیشین گوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے۔‘‘
ادھر تو یہ دعویٰ کہ میری پیشین گوئیاں اظہار الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ ادھر پیشین گوئی میں کس قدر گڑ بڑ کہ کوئی بات اگر یقینی بھی کہی تو وہ صرف بے یقینی ہی ہے۔ اس کا صرف یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ اگر زلزلہ آگیا تو نبوت چمک اٹھے گی اور نہ آیا تو کہہ دیں گے ہم نے جو کہا تھا: ’’نہ معلوم کب ہوگا۔ چند مہینوں تک، چند سالوں تک یا بعید یا قریب۔‘‘
مگر سوچنا تو یہ ہے کہ پھر ایسی پیشین گوئی کا فائدہ کیا ہے؟
جو پیشین گوئی مخالفین کے سامنے پیش کی جاتی ہے وہ تو ایسی ہونی چاہئے کہ جس کو جانچا جا سکے۔ مہمل خبر کا کیا اعتبار بلکہ مہمل خبر مخبر کی بے علمی کی دلیل ہے کہ مخبر خود تردد میں ہے۔
کیا اسی کو اظہار علی الغیب کہتے ہیں؟ ایسا ہی شخص امام الزمان ہوتا ہے۔ بلکہ تمام نبیوں کا بروز؟ مگر خدا کاذب ومفتری کو بے نقاب کر کے چھوڑتا ہے۔
پھر مرزاقادیانی نے ۱۵؍اپریل ۱۹۰۵ء کو اپنی (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۲۰، خزائن ج۲۱ ص۱۵۱،۱۵۲) پر مندرجہ ذیل اشعار میں دوسری پیشین گوئی کی:
اک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائیں گے دیہات، شہرو مرغزار
آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب
اک برہنہ نہ یہ ہوگا کہ تاباندھے ازار