اور نازک مرحلہ ہے۔
پہلا اس اشکال اور نازک مرحلہ کا اتا پتا کھولیے۔
۲… اتا پتا کیا پہلے ہی بال کی کھال اور ہندی کی چندی نکل چکی ہے مگر اندھوں کو کیا سوجھے اور مادر زاد گونگے بہرے کیا سنیں۔
پہلا آپ سو انکھے اور دانا بینا ہیں تو کیوں نہیں بتاتے سکھائی بجھائی بصر اور سمع اور قوت ناطقہ کس دن کے لیے رکھ چھوڑی ہیں۔
۲… نبوت ختم ہوچکی ہے اگر خدا نے آپ کو آنکھیں دی ہیں اور آپ لکھے پڑھے ہیں تو قرآن میں آیت ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی ملاحظہ فرمائیے۔
(پہلا) ہم لوگ زیادہ تر عقل کے پیروہیں آپ کو معلوم ہے کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں حدیثیں موضوع ہوگئی ہیں تو از روئے عقل و قیاس ومشاہدہ ممکن ہے کہ قرآن میں بھی آیات کا الحاق ہوگیا ہو آیت ختم نبوت کچھ گڈمڈاور بے جوڑ سی معلوم ہوتی ہے۔ بھلا اَبُوْہُ کی نفی کا ختم رسالت سے کیا تعلق ہے۔ یہ بھی وہی بات ہوئی ’’مارے گٹنا پھوٹے بے پتلی کی آنکھ‘‘ یہ تو قرین قیاس ہے کہ آنحضرت کسی کے باپ نہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ آپ رسول ہیں مگر اس آیت خاتم النبیین کا پوایاروں نے لگایا ہے اتنا ٹکڑا ضرور الحاق ہوا ہے۔ کیونکہ یہ بات خلاف عقل ہے کہ قیامت تک پیغمبر عرب جیسا کوئی نبی پیدا نہ ہو۔ اور حمقاء کے نزدیک اس کی نظیر پیدا کرنے سے خدا بھی عاجز ہو جائے جو خود فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْ شئیٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَائْنَہٗ یعنی ہمارے پاس ہر شے کے خزانے موجود ہیں۔ پیغمبر عرب بھی شئیٍ ہیں اِلَّا شَیْئًا نہیں۔ پھر خدا کو ضرورت ہے کہ پیغمبر عرب کے پیدا کرنے کے بعد اپنا خزانہ خالی کرکے نادار اور نہتا دم نقد رہ جاتا بلکہ اپنی کوٹھی کوٹھلے کا دیوالیہ نکال بیٹھتا۔ کیونکہ جب خدا کے پاس رسالت ہی نہ رہی تو رہا کیا۔
ننگا ناچے اُجاڑ میں ہے کوئی کپڑے لے
ایسے مفلس اور نادار خدا سے ہمارے ملک کے پر چونٹے بہت اچھے ہیں۔ اور بفرض محال لفظ خاتم النبیین الحاقی نہ سہی۔ الہام و وحی سہی مگر اس سے ختم نبوت قیامت تک کیوں لازم آئی۔ النبین میں الف لام عہد ذہنی کا ہے یعنی پیغمبر عرب ان انبیاء کا خاتم ہے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں نہ کہ قیامت تک آنے والے انبیاء کا کیا وجہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کسی نبی کو خاتم بنائے۔ نہ کتب مقدمہ توریت، انجیل، زبور میں ایسا نادر شاہی حکم صادر کرے۔ جیسا قرآن میں صادر کیا۔