ہمارے مقابلہ میں ٹھہر سکتے ہیں۔
نازنین… خدا کا شکر ہے ہم تورات دن مردوں کی طرح پڑے رہتے تھے۔ نہ کھا ناخوش آتا تھا۔ نہ پینا نہ کسی سے ہنسنا بولنا۔ راتوں کو خدا سے اٹھ اٹھ کر دعا مانگتی تھی۔ خدایا میری عزت تیرے ہاتھ ہے کہیں ان ظالموں کے پھندے میں پھنسا نہ دینا کیسی زندگی تلخ ہو جائے اور حرام موت مرنا پڑے۔
مولوی… یہ تمہاری ناتجربہ کاری کا نتیجہ ہے۔ بھلا ہم اور ہار سکتے ہیں۔ زمین و آسمان ٹل جائے۔ حضرت اقدس کا الہام غلط نہیں ہوسکتا۔ کیا تم نے براہین احمدیہ میں نہیں دیکھا۔
نازنین… اللہ میاں کے وارے وارے جائیں۔ وہ بڑا قادر قدیر ہے۔ اس کے نزدیک کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ وہ جو چاہے سو کرے ہمارے حضرت اقدس ضرور سچے اور پاک نبی اور خدا کے مرسل ہیں۔ اب بھی جو لوگ ایمان نہ لائیں۔ تو بڑا ہی غضب ہے۔ سارے صدر کے لوگ مخالف سارا کنبہ برخلاف اپنا بیگانہ سب دشمن پھر خدا نے کیسا صاف بچایا ہے۔ یہ حضرت اقدس کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر آنکھوں کے اندھے کہتے ہیں کہ حضرت اقدس کا دعویٰ نبوت جھوٹا ہے۔
مولوی… جب مقدمہ پیش ہوا ہم نے مجسٹریٹ کے رو برو صاف کہہ دیا مدعی کا مسمات کے ساتھ نکاح بھی جائز نہیں مسماۃ بوقت نکاح بالغہ تھی اور اس نے نکاح سے انکار کیا تو اس کے باپ اور دیگروں نے مار کراور دیکھو بوقت ایجاب قبول مسماۃ کا سکوت کرایا تھا۔ وہ اس نکاح سے ہرگز رضا مند نہیں تھی۔ اس واسطے شرعاً اس کا نکاح نہیں ہوا۔
نازنین… سوجھی تو خوب یہ بھی منجانب اللہ ہے۔ جو خدا کو کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ انسان کو ویسے ہی سمجھا دیتا ہے۔ اگر نکاح کے گواہ گزر جاتے۔ اور نکاح ثابت ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ میرا تو اس ذکر کو کرتے ہوئے بھی دل کانپتا ہے۔ کلیجہ چھلتا ہے۔ (ہاتھ پکڑ کر اور اپنے سینہ پر رکھ کر) دیکھے تو میرے دل کا کیا حال ہے۔
مولوی… (ہاتھ سینہ پر نازنین کے رکھ کر اور اپنی طرف کھینچ اور چھاتی سے لگا کر) میری جان اب کیا گھبراہٹ اور اندیشہ ہے۔ اب تو معاملہ طے ہولیا۔ اور مقدمہ میں مدعی نے راضی نامہ دیدیا۔ اور فیصلہ ڈسمس ہوگیا۔
نازنین… میں نے تو سنا ہے کہ راضی نامہ تو اس کم بخت (مدعی نامراد نے اس شرط پر داخل کیا ہے۔ کہ عورت کو مدعی کے گھر پہنچا دیں گے۔ اور خرچہ مقدمہ کا ادا کردیں گے) تو کیا ہوا میرے ساتھ وہ بھی بہکا فضیحتی رہی۔ اب تو بچ گیا مجھ کو تو وہی روز سیاہ دیکھنا تمام دنیا میں بدنام بھی ہوئی۔ ناک بھی کٹی منہ بھی کالا ہوا اور بات بھی کچھ نہ ہوئی۔