صورت میں ہو مجرم کا گواہ مجرم ٹھہر سکتا ہے۔ اس لیے عدالتوں کے دروازوں کو قفل لگ گیا۔ کیونکہ کسی گواہ کی کیا شامت ہے کہ وہ کسی کے ارتکاب جرم کی شہادت دے کر مجرم بنے۔مرزاجی نے جواز تصویر پرستی کے ساتھ خداتعالیٰ کے اس حکم کا بھی اسناد کیا لا تکتمو الشھادۃ ومن یکتما فانہ ثم قلبہ دیکھ سچے اسلام کے کیا اصول ہیں۔ کیا ایک اصل کے توڑنے سے بہت اصول ٹوٹ جاتی ہیں۔
ماشاء اللہ مرزا جی کے دلائل بہت معقول ہیں۔ مگر عملی طور پر سب مہدیوں اور سب مسیحوں کے کھرے کھوٹے کو آگ پر تپانا چاہیے۔
تاسیہ روی شود ہر کہ دروغشن باشد یعنی تمام مہدی میدان میں اتریں۔ اور اپنے اپنے کرتب دکھائیں جو کرتبوں میں کامل نکلے وہی مہدی اور مسیح تسلیم ہو۔ اور اگر سب ناقص اور جھوٹے نکلیں تو ایک ایک کو پھانسی پر لٹکایا جائے یا لوہے کے پنجروں میں قید کرکے کسی جزیرہ میں بھیجا جائے۔ کہ پھر وہاں سے نہ آسکیں اور دنیا ان کے کید سے محفوظ رہے۔
ہر ایک جھوٹا اور مکار مہدی اور مسیح دیکھ رہا ہے کہ اس کے چند رقیب ساتھی موجود ہیں۔ اور سب کے سب ایک ہی دعویٰ کے مدعی ہیں۔ حالانکہ مہدی اور عیسیٰ مجدد نہیں ہوسکتے پھر مسیح ایک ہی ہوگا۔ مگر بے ایمانی اور شرارت اور دہن دھو بکری دیکھے کہ ان بدمعاشوں اور دنیا کے لوٹنے والوں کو ذرہ شرم نہیں کہ ہم کیا جعلسازی اور دغا بازی کر رہے ہیں۔ اور نہ ان حمقاء کو شرم آتی ہے۔ جو ان کے دام تزویر میں پھنس کر الو کے پٹھے بن گئے ہیں۔ اور احمقوں کا جتنا گروہ مرزا جی کی مٹھی میں ہے۔ اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ لندنی اور فرانسیسی اور افریقی اور جاوی مسیحوں اور مہدیوں کے پتلون اور بنیان میں ہے پس و حشی اور مہذب دونوں ایک سے سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔ اور کسی میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں رہا کیوں نہیں وہ خوب جانتے ہیں۔ کہ ساری کارروائی خود ان کی کانشنس کے خلاف ہے اور ان کو کامل یقین ہے کہ محض خود غرضی اور جلب منفعت کے لیے ہم یہ ٹھیٹھ تیار کرکے اسٹیج پر تماشا دکھا رہے ہیں تاکہ طفلا نہ طبیعت کے حمقاء سے ٹکے سیدھے کریں۔ بہرحال چند روز میں عقدہ کھلا جاتا ہے۔ سب کے سب سر پکڑ کر آنسو نہ بہائیں ہمارا ذمہ۔
حاصل نہ ہوا بجز ندامت
کس تخم کو خاک میں ملایا
اڈیٹر شحنہ ہند میرٹھ ۸ مارچ ۱۹۰۳ء