کے ساتھ ہوگیا۔ مدینہ منورہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔ مگر کسی وجہ سے یہ ارادہ ملتوی ہوگیا۔ بعد ازاں سجاح نے مسیلمہ کا رخ کیا۔ مسیلمہ نے یہ خیال کر کے کہ اگر سجاح سے جنگ چھیڑی تو کہیں قوت کمزور نہ ہو جائے۔ اس لئے مسیلمہ نے بہت سے ہدایا اور تحائف سجاح کے پاس بھیجے اور اپنے لئے امن طلب کیا اور ملاقات کی درخواست کی، مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ سجاح سے جاکر ملا اور یہ کہا کہ عرب کے کل بلاد نصف ہمارے تھے اور نصف قریش کے لیکن قریش نے بدعہدی کی اس لئے وہ نصف میں نے تم کو دے دئیے۔
بعدازاں مسیلمہ نے سجاح کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ سجاح نے اس دعوت کو قبول کیا۔ مسیلمہ نے ملاقات کے لئے ایک نہایت عمدہ خیمہ نصب کرایا اور قسم قسم کی خوشبوؤں سے اس کو معطر کیا اور تنہائی میں ملاقات کی۔ کچھ دیر تک سجاح اور مسیلمہ میں گفتگو ہوتی رہی۔ ہرایک نے اپنی اپنی وحی سنائی اور ہرایک نے ایک دوسرے کی نبوت کی تصدیق کی اور اسی خیمہ میں نبی اور نبیہ کا بلاگواہوں اور بلا مہر کے نکاح ہوا۔ تین روز کے بعد سجاح اس خیمہ سے برآمد ہوئی۔ قوم کے لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہا کہ میں نے مسیلمہ سے صلح کر لی اور نکاح بھی کر لیا۔ لوگوں کو بہت ناگوار ہوا اور سجاح کو لعنت ملامت کی۔ قوم نے پوچھا کہ آخر مہر کیا مقرر ہوا؟ سجاح نے کہا کہ اچھا میں پوچھ کر آتی ہوں کہ میرا مہر کیا ہے؟ سجاح مسیلمہ کے پاس آئی اور مہر کا مطالبہ کیا۔ مسیلمہ نے کہا کہ جا اپنے ہمراہیوں سے یہ کہہ دے کہ مسیلمہ رسول اﷲ نے سجاح کے مہر میں دو نمازیں فجر اور عشاء کی تم سے معاف کر دیں۔ جن کو محمد(ﷺ) نے تم پر فرض کیا تھا۔ سجاح نے واپس آکر اپنے رفقاء کو اس مہر کی خبر کی۔ اس پر عطاردبن حاجب نے یہ شعر کہا ؎امست نبیتنا انثی نطوف بہا
واصبح انبیاء الناس ذکرانا
(شرم کی بات ہے) ہماری قوم کی نبی عورت ہے جس کے گرد ہم طواف کر رہے ہیں اور لوگوں کے نبی مرد ہوتے چلے آئے ہیں۔
سجاح جب مسیلمہ کے پاس سے لوٹی تو اثناء راہ میں خالدؓ بن ولید کا اسلامی لشکر مل گیا۔ سجاح کے رفقاء تو منتشر ہوگئے اور سجاح روپوش ہوگئی اور اسلام لے آئی اور پھر وہاں سے بصرہ چلی گئی اور وہیں اس کا انتقال ہوا اور سمرۃ بن جندبؓ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت سمرۃؓ اس وقت حضرت معاویہؓ کی طرف سے امیر تھے۔ (تاریخ ابن الاثیر ج۲ ص۲۱۳تا۲۱۶)
اطلاع