وفي حديث أنس: أن رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم كان يتوضأ بمَكُّوكٍ، ويَغْتَسِلُ بخمسة مَكاكِيكَ ، وفي رواية: بخمسة مَكاكي، أراد بالمَكُّوك المُدَّ،
وقيل : الصاع . والأوّل أشبه؛ لأنه جاء في حديث آخر مُفَسَّراً بالمُدّ، والمَكاكي: جمعُ مَكُّوكٍ على إبدالِ الياء من الكاف الأخيرة، والمكُّوك : اسمٌ للمكيال، ويَخْتلف مقدارهُ باختلاف اصطلاحِ الناس عليه في البلاد (النھایۃ: مادۃ مکوک)
’’حضرت انسؓ کی روایت میں ہےکہ حضور ﷺ ایک مکوک سے وضو فرماتے اورپانچ مکوک سے غسل فرماتے تھے۔ ایک روایت میں (مکوک کی جمع) مکاکیک ہے دوسری میں مکاکی ہے؛ اس حدیث میں مکوک سے مد مراد ہے اوربعض کہتے ہیں کہ صاع مراد ہے؛ لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے؛ کیونکہ ایک دوسرے طریق میں صراحتاً مدہی کا لفظ آیا ہے۔ مکاکی بھی مکوک ہی کی جمع ہے؛ آخری کاف کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔
مکوک ایک پیمانہ ہے؛ اس کی مقدار ہر ملک میں جدا جداہوتی ہے‘‘۔
علامہ ابن اثیرؒ کا یہ کلام نہایت واضح ہے، اس سے ہر طرح تشفی ہوجاتی ہے۔ لیکن شارحین حدیث میں ایک معتبر مالکی عالم قاضی عیاض بھی ہیں، انہوں نے مشارق الانوار میں مکوک کی بابت جو لکھا ہے، اس سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، اس لیےاسے دور کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، قاضی صاحبؒ لکھتے ہیں:
قوله المكوك هو مكيال معروف بالعراق، وبفتح الميم وتشديد الكاف، ويسع صاعا ونصفا بالمدني، ويجمع مكاكي ومكاكيك، وبالروايتين جاء في مسلم
(مشارق الانوار، ماۃ: م، ک، ک)
’’مکوک ایک پیمانہ ہے، جو عراق میں مشہور ہے، میم مفتوح اور کاف مشددکے ساتھ ہے،
اس میں مدنی صاع سے ڈیڑھ صاع سماتا ہے، اس کی جمع مکاکی اورمکاکیک دونوں ہے،
اوردونوں الفاظ صحیح مسلم میں مروی ہیں‘‘۔
اس عبارت سے بظاہر یہ گمان جاتا ہےکہ مسلم شریف کی جس روایت میں حضور ﷺ کا ایک مکوک سے وضو کرنا اورپانچ مکوک سے غسل کرنا ثابت ہوتا ہے، اس روایت میں مکوک سے ڈیڑھ صاع کا پیمانہ مراد ہے؛ حالاں کہ ایسا ہرگز درست نہیں؛ حضور ﷺ کا صرف ایک صاع سے غسل کرنا کئی ایک احادیث میں صراحتاً منقول ہے، اورفقہاء ومحدثین کے درمیان یہی مشہور بھی ہے،