ایک اوقیہ چالیس درہم کا اورنش نصف اوقیہ یعنی: بیس درہم کا ہوتا ہے؛ اس طرح مجموعہ پانچ سو درہم ہوتا ہے۔یہی مقدار مہر فاطمی سے مشہور ہے۔ مہر فاطمی موجودہ وزن سے: ایک کلو، پانچ سو تیس (۵۳۰) گرام، نوسو (۹۰۰) ملی گرام چاندی ہوتا ہے۔اورقدیم تولہ سے ایک سو، سوااکتیس (۱۳۱ء۲۵) تولہ ہوتا ہے۔ بعض کتابوں میں جو ۵۳ تولہ لکھا ہے، وہ دس گرام کے تولہ سے لکھا ہے۔
بعض روایات میں صرف بارہ اوقیہ کا تذکرہ ہے، اس کے مطابق مہر فاطمی ۴۸۰ درہم ہوگا۔ مگر صحیح مقدار وہی ہے، جو اوپر لکھا گیاہے؛ کیونکہ اس روایت میں نش کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے، جیساکہ عربوں کی عادت ہےکہ کسر چھوڑ کر بولتے ہیں۔ روایت یہ ہے:
(عن عمر بن الخطاب) مَا عَلِمْتُ رَسُولَ اللہ ﷺ نَكَحَ شَيْئًا مِنْ نِسَائِهِ وَلاَ أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَىْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (ترمذی،باب فی مہور النساء)
’’حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں: میرے علم کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں یا بیٹیوں میں سے کسی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا‘‘۔
صاحب احسن الفتاوی کا خیال یہ ہےکہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہے، مگر بنات طیبات کا مہر فقط ۴۸۰ درہم ہے، کیونکہ حضرت عائشہؓ کی روایت میں ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہونا مذکور ہے، مگرکسی روایت میں بنات طیبات کا مہر ۵۰۰ درہم ہونا مذکور نہیں ؛ اس لیے انہوں نے مہر فاطمی فقط ۴۸۰ درہم قرار دیا ہے۔ (دیکھیے:احسن الفتاوی ۵؍۳۲)
مگر اس ناکارہ کا خیال یہی ہےکہ مہر فاطمی جو ۵۰۰ درہم مشہور ہے وہی صحیح ہے، جس طرح ازواج مطہرات کا مہر ۵۰۰ درہم مسلم ہے، مگر روایت بالا میں ۴۸۰ سے زائد کی نفی ہے، اسی طرح بنات کا مہر بھی ۵۰۰ درہم تھا، اگرچہ روایت بالا میں ۴۸۰ سے زائد کی نفی ہے۔ وجدان صحیح اس کی شہادت نہیں دیتاکہ آپ کی بنات کا مہر ۵۰۰ کے بجائے خصوصیت سے ۲۰ درہم کم کرکے ۴۸۰ درہم متعین کیا جاتا ہو۔
فاللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔
پھر مصنف ابن ابی شیبہؒ میں دومرسل رواتیں ایسی مل گئیں جن سے قول مشہور کی ہی تائید ہوتی ہے؛ روایات ملاحظہ فرمائیں: