ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
واسطے سے نشر ہو نے کی صورت میں تصویر کے حکم میں ہیں اور اسی بنیاد پر آپ نے راست پروگرام کو جائز اور اس کی صورتوں کو تصویر سے خارج قرار دیا ہے اور فلم کے ذریعے نشر کیے جانے والے پروگرام کو ناجائز اور ان صورتوں کو تصویر کے حکم میں قرار دیا ہے ۔ چناں چہ آپ نے’’ تکملۃ فتح الملہم ‘‘ میں یہ سوال قائم کرتے ہوئے کہ کیا ٹی- وی کو تصویر کی بنا پر حرام قرار دیا جا سکتا ہے؟اس کا جواب یہ لکھا ہے کہ ’’ فإن لھذا العبد الضعیف فیہ وقفۃ وذٰلک لأن الصورۃ المحرمۃ ما کانت منقوشۃ أو منحوتۃ بحیث یصح لھا صفۃ الاستقرار علٰی شیء وھي الصورۃ التي کان الکفار یستعملونھا للعبادۃ ، أما الصورۃ التي لیس لھا ثبات واستقرار ولیست منقوشۃ علٰی شیء بصفۃ دائمۃ فأنھا بالظل أشبہ منھا بالصورۃ، ویبدو أن صورۃ التلفزیون والفیدیو لا تستقر علٰی شیء في مرحلۃ من المراحل إلا إذا کان فی صورۃ ’’ فیلم‘‘۔ فإن کانت صور الإنسان حیۃ بحیث تبدو علٰی الشاشۃ فی نفس الوقت الذي یظھر فیہ الإنسان أمام الکیمرا ، فإن الصورۃ لاتستقر علٰی الکیمرا ولا علٰی الشاشۃ ، وإنما ھي أجزاء کھربائیۃ تنتقل من الکیمرا إلٰی الشاشۃ و تظھر علیھا بترتیبھا الأصلي ثم تفني و تزول‘‘۔ ترجمہ : ’’ اس عبد ِضعیف کو اس میں توقف ہے اور یہ اس لیے کہ حرام تصویر تو وہ