ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
لیے ہے کہ تاکہ بچپن ہی سے گھریلو امور اور اولاد کے بارے میں تربیت پائیں ۔(۱) مگر اس میں بھی جمہور علما کی رائے یہی ہے کہ یہ بھی ناجائز ہے اور جمہور نے ان احادیث کی مختلف توجیہات و تاویلات بیان کی ہیں : ۱- ایک یہ کہ یہ اجازت والی احادیث، تصویر کی حرمت کے نازل ہونے سے پہلے کی ہیں ؛ اس لیے یہ اجازت ان احادیث کی وجہ سے منسوخ ہے، جن میں تصویر کو ناجائز قراردیا گیا ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ثبت النھي عن اتخاذ الصور ، فنحمل علٰی أن الرخصۃ لعائشۃ رضی اللہ عنھا في ذالک کانت قبل التحریم و بہ جزم ابن الجوزي۔(۲) ۲- بعض حضراتِ علما فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے لیے گڑیوں کی رخصت واجازت دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ گڑیاں در حقیقت مکمل تصویریں نہیں تھیں ؛ بل کہ نام ہی نام کی گڑیاں تھیں ،جن کے ہاتھ پیر اور چہرہ وغیرہ نہیں تھا اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ ان گڑیوں کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پوچھا کہ یہ کیا چیزیں ہیں اور ان کے درمیان کیا چیز رکھی ہے ؟ اگر یہ مکمل تصویریں ہوتیں ، تو اس سوال کی کیا ضرورت ہوتی؟ دیکھتے ہی خود معلوم ہو جاتا کہ یہ گھوڑوں کی تصویریں ہیں ۔ علامہ منذری رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس احتمال کا ذکر کیا ہے ،حافظ ابن حجر اور حافظ عینی Oنے لکھا ہے کہ قال المنذري: إن کانت اللعب کالصورۃ فھو قبل -------------------------------- (۱) فتح الباري:۱۰؍۵۲۷ (۲) فتح الباري: ۱۰؍ ۵۲۷،عمدۃ القاري:۱۵؍۶۴۲ التحریم