ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر سارس کی تصویر تھی۔(۳) یہ سب اگرچہ آثار ِصحابہ ہیں ، مگر جمہور علما کے نزدیک آثارِ صحابہ بھی حجت ہیں ، خصوصاً اس وقت جب کہ کسی باب میں مرفوع احادیث نہ ہوں ؛ اس لیے ان آثار سے استدلال و احتجاج کرنا بلا کسی شبہے کے جائز ہے ۔ اور فقہا نے بھی ایسی چھوٹی تصاویر کوجائز رکھا ہے؛چناں چہ ہدایہ ، عالمگیری اور در مختار و غیرہ میں ہے کہ ولو کانت صغیرۃ بحیث لا یبدو للناظر إلا بتأمل لا یکرہ۔(۱) ترجمہ: کہ اگر تصویر اس قدر چھوٹی ہو کہ دیکھنے والے کو بغیر تأمل و تکلف دکھائی نہ دے، تو ایسی تصویر مکروہ نہیں ۔ علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ تعالی چھوٹی اور بڑی تصاویر کا معیار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ والمراد بالصغیرۃ التي لا تبدو للناظر علٰی بُعد، والکبیرۃ التی تبدو للناظر علی بُعد۔ ترجمہ: چھوٹی تصویر وہ ہے ،جو دیکھنے والے کو دور سے دکھائی نہ دے اور بڑی وہ ہے، جو دور سے دکھائی دے۔(۲) الغرض! اس قدر چھوٹی تصاویر کہ دیکھنے والے کو اعضائِ تصویر بلا تکلف نظر نہ آئیں ، تو اس کی بھی شرعاً گنجائش دی گئی ہے اور حضراتِ صحابہ fکے عمل سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ------------------------ (۳) شرح معاني الآثار:۴/ ۲۶۳،۲۶۶ (۱) (الہدایۃ:۱/۱۴۲الھندیۃ: ۱/۱۰۸واللفظ لہ ،شامي:۱/۶۴۸) (۲) البحرالرائق:۲/۵۰