ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
بلکہ اس پر بھی نکیر فرمائی تھی؛ چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک چھوٹا سا تکیہ خریدا، جس میں تصاویر تھیں ، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور دروازے پر ہی کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے، میں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی جناب میں توبہ کرتی ہوں ، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما یا : یہ کیسے تکیے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ میں نے اس لیے خریدے ہیں تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اورٹیک لگائیں ، آپ نے فرمایا کہ إن أصحاب ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیامۃ ، یقال لھم : احیوا ما خلقتم ؛ وإن الملائکۃ لا تدخل بیتاً فیہ الصورۃ۔(۱) ترجمہ: یہ تصویر والے قیامت کے دن عذاب میں گرفتار ہوں گے ، ان سے کہا جائے گا کہ جو تصویر بنائی ہے، اس میں جان ڈالو اور (فرمایا کہ) فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تصویر دار تکیہ بھی استعمال کرنا پسند نہیں کیا ؛ لہٰذا اس حدیث اور اس سے ما قبل کی حدیث میں بہ ظاہر تعارض ہے ، شراحِ حدیث نے اس کا جواب دیا ہے: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے قائم کردہ تراجم سے یہ جواب اخذ کیاہے کہ پامال تصاویر کی اجازت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس تصویر پر بیٹھا بھی جائے ، ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکیوں میں سے ایسا تکیہ استعمال کیا ہو ،جس میں تصویر نہیں تھی اور ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکمل تصویر والا تکیہ استعمال نہیں کیا، مگر جب اس کو کاٹ کر اس کی ہیئت میں تبدیلی کردی گئی، تو آپ نے اس کو استعمال فرمایا۔ اس لیے جس حدیث میں استعمال کرنا وارد ہوا ہے اس سے مراد ----------------------- (۱) البخاري:۵۵۰۴ والمسلم:۳۹۴۱