ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
ترجمہ: توضیح میں ہے کہ ہمارے فقہا و غیرہم نے فرمایا ہے کہ جان دار کی تصویر بنانا سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، خواہ ایسی تصویریں ہوں ، جن کو عادتاً ذلیل و حقیر رکھا جاتا ہے یا ایسی نہ ہوں ، پس وہ بہ ہر حال حرام ہیں ؛ اس لیے کہ اس میں اللہ کی صفتِ خلق سے مشابہت ہے ۔ اور اس میں یہ بات برابر ہے کہ وہ تصویر کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار، درہم اور پیسوں میں ہو یا برتنوں میں یا دیواروں میں اور برابر ہے کہ وہ مجسم مورت ہو، جس کا سایہ پڑتا ہے یا محض نقش اور رنگ ہو ۔ یہی فرمایا ہے جماعت ِعلما، امام مالک، امام ثوری اور امام ابوحنیفہ و غیرہم رحمہم اللّٰہ نے اور قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ’’ بچیوں کے کھلونے جائز ہیں اور امام مالک اس کے خریدنے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے‘‘ ۔ اور امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباري میں اور علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالی نے إرشاد الساري (۱۲؍۱۲۲)میں امام نووی رحمہ اللہ تعالی کی مذکورہ عبارت نقل کی ہے ،جو اس کی تصدیق و تائید ہے اور اسی طرح علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالی نے شرح المشکاۃ (۸؍۲۹۴) میں اور ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃالمصابیح (۷؍۳۲۶) میں بھی’’ توضیح ‘‘کی عبارت ذکر کی ہے ،جس سے ان کا اس سے اتفاق کرنا ثابت ہوتا ہے اور ان سب عبارات و توضیحات سے تصویر کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جمہور ائمہ و علما اوربالخصوص ائمہ ٔ اربعہ کے نزدیک حرام و ناجائز ہے ۔ اب اس پر غور کرنا ہے کہ جب ’’ٹی- وی‘‘ کے تقریباً ہر پروگرام میں جان دار کی تصویر ایک لابدی و لازمی چیز ہے تو’’ ٹی- وی‘‘ کے جائز و مباح ہو نے کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ ------------------------- (۱) عمدۃ القاري:۱۵؍۱۲۴