ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
تو اس کا جواب یہ ہے کہ تکمیلِ دین کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ہر چیز کی حلت وحرمت کا بیان موجود ہے اور یہ بیان مختلف صورتوں سے ہوتا ہے، کبھی صراحت سے کبھی اشارۃًوکنایۃً ، کبھی دلالۃً اورکبھی اقتضاء ً۔ بیان کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی اصول وکلیہ بیان کردیا جائے، جس سے پیش آنے والے ہزاروں مسائل کا جواب وحکم معلوم ہوجائے۔ قرآن نے زیادہ تراسی کو اختیار کیا ہے اور جہاں کوئی جزئیہ بیان بھی کیا ہے، توساتھ ہی اس کا ایک کلیہ واصول بھی بتادیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایاگیا ہے: {وَلَا تَقْرَبُوْ الزِّنٰی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَائَ سَبِیْلًا۔} { X: ۳۲} ترجمہ: اور زنا کے قریب نہ جائو ،یہ فحش کام ہے اور براراستہ ہے ۔ اس میں خاص زنا کے متعلق یہ حکم دے کر کہ اس کے قریب نہ جائو ،اس کی وجہ بھی بتادی گئی کہ زنا، فحش اور بے حیائی کاکام ہے ، اس سے یہ بات نکل آئی کہ ہر فحش کام اس قابل ہے کہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکاجائے؛ چناں چہ اس کلیے اور اصول کو دوسرے مقام پر صاف الفاظ میں بتلادیا گیا ہے۔ { وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَاظَھَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ ۔} {A: ۱۵۱} ترجمہ: اور تم فحش کاموں کے قریب مت جائو، ظاہر ہوں یا مخفی ہوں ۔ اس کے علاوہ قرآن وحدیث نے جو جزئیات پیش کی ہیں ، وہ بھی دراصل کسی نہ کسی اصول و کلیے (Principle) کے تحت داخل ہوتی ہیں ۔ حاصل یہ کہ