ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
بھی (جیسا کہ عرض کر چکا ہوں )اگر چہ جائز و ناجائز اور اچھی و بری ،صحیح و غلط ہر قسم کی چیزیں ہوتی ہیں ،تاہم اس میں کیا شک ہے کہ اگر نیک و صالح آدمی اس کو جائز و مفید مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہے، تو اس میں اس کے لیے نہایت ہی مفید و کار آمد چیزیں دستیاب ہوتی ہیں ؛اس لیے اس کا دینی و جائز مقاصد کے لیے استعمال جائز ہے ۔ ہاں ! اگر کوئی اس کا استعمال غلط کاموں اور ناجائز باتوں اور فحش و بے حیائی کی چیزوں کے لیے کرے، تو اس کو حرام و ناجائز کہا جائے گا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ’’انٹرنیٹ‘‘میں دونوں قسم کی چیزیں ہیں ؛ اچھی بھی اور بری بھی، جائز بھی اور ناجائز بھی؛ اس لیے اس کو علی الاطلاق ناجائز یا جائز نہیں کہا جائے گا ؛بل کہ اس کے حکم میں تفصیل کی جائے گی کہ اگر جائز کاموں اور مفید باتوں اور دینی مقاصد کے لیے اس کا استعمال ہو، تو اس کو علی حسب المراتب جائز یامستحسن قرار دیا جائے گا اور اگر اس کا استعمال ناجائز و بری باتوں اور فحش و بے حیائی کے لیے کیا جائے، تو اس کو حرام و ناجائز کہا جائے گا ۔ مگرٹی- وی اس کے برعکس صرف ناجائز امور پر مشتمل ہو تی ہے؛ کیوں کہ اس میں کم از کم جان داروں کی تصویریں تو ضرور ہوتی ہیں جو کہ ناجائز ہیں اور تصاویر کے بغیرٹی- وی کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا؛ اس لیے اس کے حکم میں تفصیل کی کوئی وجہ نہیں بل کہ اس کو ’’علی الاطلاق حرام‘‘ کہا جائے گا ۔ اور اگر یہ شبہ ہو(جیسا کہ ایک عالم نے میرے سامنے اس کو پیش کیا تھا) کہ انٹرنیٹ میں بھی کسی نہ کسی قسم کی تصاویر؛ بل کہ فحش قسم کی تصاویر سامنے آہی جاتی ہیں اور ان سے بچنا ناممکن ہوتا ہے ،تو اس کو بھی ٹی- وی کی طرح ناجائز ہو نا چاہیے یا ٹی-وی کو بھی جائز ہونا چاہیے؟ تو اس کا جواب بندے کے نزدیک یہ ہے کہ انٹرنیٹ میں