ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب عرض ہے کہ ٹی- وی ایک ایسا آلہ ہے، جس میں متعددوجوہِ حرمت جمع ہیں ؛اس لیے یہ شرعاً ’’ناجائز ہے ‘‘اور ان میں سے ایک وجہِ حرمت، یعنی ’’جان دار کی تصویر کا ہونا ‘‘ تو تقریباً سب ہی پروگراموں میں پائی جاتی ہے اور جو چیز ناجائز ہو، اس کو دین کے لیے استعمال کر نا بھی ناجائز ہے؛ اس لیے سوال میں مذکور چیزوں کے لیے بھی اس کا استعمال ناجائز ہے ۔ رہی ایسی تصویریں جو شرعاً جائز ہیں ، جیسے حرم شریف کی تصویر وغیرہ، تویہ اگرچہ فی نفسہٖ جائز ہیں ، مگربعض عوارض کی وجہ سے ان کا بھی وہی حکم ہے،جو جان دار کی تصویر کا حکم ہے اوروہ عارض یہ ہے کہ اس ایک پروگرام کی اجازت دیں گے، تو لوگ اس کے ذریعے غیر شرعی پروگرام بھی دیکھنے لگ جائیں گے اور فقہی اصول ہے کہ جو جائز چیز اور کام ،ناجائز کاموں کی طرف مفضی یعنی ان کی طرف لے جانے والا ہو، وہ بھی ناجائز ہو تا ہے اور معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فقہی اصول در اصل ایک حدیث سے مستنبط ہے ،وہ حدیث یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مَا أَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ ، فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ ۔(۱) ترجمہ: یعنی جس چیز کا کثیر حصہ نشہ لاتا ہے، اس کا قلیل حصہ بھی حرام ہے۔ الحاصل: جس چیز کا بڑا حصہ نشہ آور ہو، اس کا معمولی حصہ بھی حرام ہوتا ہے ، کیوں کہ قلیل سے کثیر کی عادت ہوجائے گی اور آدمی تھوڑا تھوڑا پیتے ہوئے زیادہ پینے لگے گا ۔ اس اصول کے مطابق ٹی- وی کے زیرِبحث مسئلے پر غور کیجیے، ٹی- وی ------------------------- (۱) رواہ الترمذي:۱۷۸۸، و أبو داود: ۳۱۹۶ ، و ابن ماجہ:۳۳۸۴، و أحمد:۱۴۱۷۶