ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
الجواب: اس سے قبل کہ آپ کے سوال کا جواب دیا جائے ، یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دین حاصل کر نے کے جو اور طریقے اور ذرائع ہیں ، کیا آپ نے ان سب کو استعمال کر لیا ہے؟ اور اب کیا صرف یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا ہے،جس سے آپ اب علمِ دین اور ذوقِ دین وشوقِ دین حاصل کر نا چاہتے ہیں ؟ علمِ دین اور ذوقِ دین تو حاملینِ دین و بزرگانِ دین کی معیت و صحبت اور ان کی خدمت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ شاعر نے خوب اور سچ کہا ہے ؎ نہ کتابوں سے ،نہ وعظوں سے، نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے،بزرگوں کی نظر سے پیدا جب کتابوں اور وعظوں سے بھی دین پیدا نہیں ہوتا تو ،ٹی-وی دیکھ کر کیسے دین کا علم اور دین کا ذوق آپ کے اندر پیدا ہوجائے گا ؟ آج ایک طبقہ علمِ دین اور ذوقِ دین کے نام پر اسی طرح بھٹک رہا ہے اور ریڈیو، ٹی- وی اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے ذریعے عالم و فاضل بن جانا چاہتا ہے؛میں پوچھتا ہوں کہ اسی طرح ڈاکٹر اور انجینئر اور مختلف دنیوی علوم کی تحصیل کے لیے ان چیزوں پر کیوں اکتفا نہیں کرتے؟ اور اگر بالفرض کوئی ایسا کرے، تو کیا کوئی اس علم کو علم قرار دے گا اور اس پر اعتماد کرے گا؟ آپ واقعی علمِ دین کے شوقین ہیں اور ذوقِ دین اور دین کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں ، تو علمائے دین اور بزرگا نِ دین کی خدمت میں جائیے اور فیض اُٹھا ئیے؛ اس بے غبارشرعی طریقے کو چھوڑ کر اس سوال وجواب کے پیچھے پڑنا کہ ٹی-وی سے دین حاصل کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے، یہ ایک شیطانی فریب ہے ، جس سے بچ کر رہنا چاہیے۔