ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
ہی ہیں ، کوئی عالم آج بھی ان چیزوں کو جائز نہیں قرار دیتا،جن کی حرمت کا فتویٰ دیا جاچکا ہے، پھر جب علما کو بتایا گیا کہ ریڈیو میں تلاوت ِقرآن بھی ہوتی ہے اور تفسیرِ قرآن بھی، نعت وحمد بھی،وعظ وتقریر بھی؛ تو علما نے شرعی حدود وقیود کے ساتھ ان چیزوں کو سننے کی اجازت دی اور وہ آج بھی جائز ہیں ، مگر ان علما کو کیا خبر تھی کہ ریڈیو میں ان دینی امور کو داخل کرنا، بعض عناصر کی جانب سے محض اپنی خواہش کے مطابق ’’جواز کا فتویٰ ‘‘حاصل کرنے کی ایک سازش کی تھی اور کسے خبر تھی کہ فتویٰ لیتے ہی حدود و قیود سے آزاد ہوکر یہ لوگ ’’ ریڈیو جائز ہے‘‘ کی رٹ ایسی لگائیں گے کہ علما کے فتوئوں میں موجود حدود وقیود ، صرف ان کے لکھے ہوئے کاغذ میں محدود ومقید ہو کر رہ جائیں گے اور امت کو اور علمائے امت کو یہ لوگ یوں دھوکہ دیں گے! ا فسوس ہے کہ آج یہی تاریک خیال طبقہ اپنے کو سب سے زیادہ روشن خیال کہتا ہے۔ اسی جدت پسند طبقے کی ایک معروف شخصیت ’’ڈاکٹر اسرار احمد صاحب‘‘ (پاکستان) ابھی بنگلور تشریف لائے تھے، ان سے ایک اخباری نمائندے نے انٹرویو لیا اور اس میں جدید آلات سے استفادے کے بارے میں سوال کیا ، اس پر ڈاکٹر صاحب نے اسی قسم کا ایک شوشہ چھوڑا اور اپنی شانِ تحقیق کے ساتھ یہ فرمایا کہ ’’ علما ہر نئی چیز کو ناجائز کہہ دیتے ہیں ،جب لاؤڈ اسپیکر(Loud speaker) کی ایجاد ہوئی، تو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے اس کو بھی ناجائز قرار دے دیا ،پھر آہستہ آہستہ اس کا رواج مساجد میں بھی ہوگیا ‘‘۔