ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
اوراگربالفرض پہلی وجہِ حرمت کوٹی- وی کے تصویرمیں نہ مانا جائے، تب بھی اس میں کلام کی گنجائش نہیں کہ باقی وجوہات اس میں پائی جاتی ہیں ۔ غور فرمائیے کہ کیا اس سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی قوتِ شہوانیہ میں تحریک نہیں ہوتی؟ کیا اس سے ان کے خفتہ جذبات بے دار نہیں ہوتے؟ کیا ان میں ہیجانی کیفیات نمودار نہیں ہوتیں ؟ جب یہ سب کچھ ہوتا ہے، تو پھر تصویر کی طرح یہ عکس بھی کیوں نہ حرام ہوگا ؟ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ تصویر سے زیادہ ٹیلی ویژن کے عکس میں جنسی جذبات اور شہوانی خیالات کو اپیل کرنے والی کیفیات وخصوصیات ہوتی ہیں اور اس عکس میں حرکت بھی ہوتی ہے، جس سے اور زیادہ فتنہ ابھر تا ہے، تو اس کے تصویر سے زیادہ حرام ہونے میں بھی شبہ نہ ہونا چاہیے۔ اب رہا وہ اصل سوال کہ’’ ٹی- و ی کی صورتیں عکس ہیں یا تصویر ‘‘؟ تو اس پر ہم نے اوپر تفصیل سے کلام کردیا ہے اور فنی اعتبار سے اس کو ثابت کردیا ہے کہ پروگرام خواہ براہِ راست نشر کیا جائے یا نگیٹیو لینے کے بعد،ہر صورت میں اس کی صورتیں تصاویر کے حکم میں ہیں ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ عکس نہیں ؛بل کہ تصویر کے حکم میں ہے، تو اسی سے اس کا حرام وناجائز ہونا بھی ثابت ہوگیا بہ شرطیکہ یہ جان دار چیزوں کی صورت ہو۔ہاں ! اگر غیر جان دار کی ہو، تو اس کا حکم جواز کا ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے۔ الغرض! زیرِبحث پروگرام، جس میں مفید ومعلوماتی چیزیں نشر کی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں تصاویر ہوتی ہیں ،جو شرعاً حرام و ناجائز ہیں ، یہ بھی شرعی اعتبار سے ناجائز قرار پاتا ہے، اگر چہ اس میں کچھ فائدہ ونفع بھی ہو، مگر اس سے اس کے مفاسد کی برائی وحرمت ختم نہیں ہوجاتی، اس لیے یہ ناجائز وحرام ہے۔