ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
نتیجہ نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا اس میں ایک اور مقدمہ بھی لگانا ضروری ہوا ۔ پھر بعض حضرات جو اپنے کو کچھ منطقی فرض کرتے ہیں ، وہ ایک مقدمہ یہ ملاتے ہیں کہ’’ آئینے میں جو عکس نظر آتا ہے، وہ جائز ہے؛ لہٰذاٹی- وی کا عکس بھی جائز ہے ، مگر اہلِ علم جانتے ہیں کہ شکلِ اول کے نتیجہ دینے کی ایک شرط کلیتِ کبریٰ ہے ؛لہٰذا جب تک کہ ہرعکس کو جائز ثابت نہ کیا جائے گا ،یہ شکل وقیاس نتیجہ نہیں دے سکتا؛ لہٰذا پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ ہر عکس خواہ وہ کسی قسم کا کیوں نہ ہو ،جائز ہے، پھر نتیجہ مرتب کیا جائے، مگر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ خود فقہائے کرام نے بعض قسم کے عکس کو ناجائز قرار دیا ہے۔ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی نے لکھا ہے: اجنبی عورت کا عکس پانی یا آئینے میں دیکھنا ’’حرام ہونا چاہیے‘‘ کیوں کہ فتنے اور شہوت کا اندیشہ ہے، پھر علامہ ابن حجر شافعی رحمہ اللہ تعالی سے بھی اس بات کی ترجیح نقل کی ہے۔(۱) معلوم ہوا کہ ہر عکس جائز ومباح نہیں ہے ، تو پھرٹی- وی کی صورتوں کو عکس ماننے سے اس کا جائز ہونا ثابت نہ ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ دوسرے اس سلسلے میں یہ بات نہایت اہم اور لائقِ توجہ ہے کہ اسلام میں احکام کا مدار علت پر ہے ؛ لہٰذا جن احکامات کی علت منصوص یا معقول (عقل میں آنے والی ) ہو ، ان کا وہ حکم اسی علت کی بنا پر ہوگا ،جیسے شراب حرام ہے اور اس کی وجہ وعلت ’’ نشہ ‘‘ ہے؛لہٰذا نشہ مدارِ حکم ہے ،پھر اگر وہ علت کسی اور چیز میں پائی جائے، تو وہ دوسری چیز بھی حرام ہوگی، جیسے’’ نشہ‘‘ اگر کسی اور چیز میں پایا جائے، تو وہ چیز بھی شراب کی طرح حرام ہوگی۔ جب یہ اصول معلوم ہوگیا، تو اب اسی اصول پر ٹی- وی کی صورتوں کا حکم ------------------------------ (۱) درمختار:۶/۳۷۲