ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
مرد کی طرح عورت کو بھی حکم ہے کہ غیرجنس کو نہ دیکھے؛ نیز قرآنِ مجید میں جس طرح نظروں کو نیچی رکھنے کا حکم مردوں کو دیا گیا ہے، اسی طرح عورتوں کو بھی حکم دیاگیا ہے ۔ رہا یہ کہ’’ فقہا نے عورتوں کو اجازت دی ہے کہ مرد کو دیکھے، بہ شرطیکہ شہوت نہ ہو‘‘، تو عرض ہے کہ اولاً تو یہ تمام فقہا کا مذہب نہیں ہے، پھر اس میں جو شرط لگائی گئی ہے کہ شہوت نہ ہو ،اس کا تحقق شاذ ونادر ہی ہوتا ہے ؛ لہٰذا یہ مسئلہ ایک فرضی مسئلے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتاہے اور فقہائے کرام بعض بعض ایسے مسائل بھی بیان کرتے ہیں ،جو شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں ،جیسا کہ کتب ِفقہ سے شغف رکھنے والے پر مخفی نہیں ؛لہٰذا اس کی بنیاد پر موجودہ زمانے کے لوگوں کو اجازت مرحمت فرمانا،نہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اسلامی مزاج سے ہم آہنگ ہے؛ نیزموجودہ ماحول ومعاشرے میں پھیلے ہوئے فاسد عناصر کے پیشِ نظر اس کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،تعجب اور حیرت ہے کہ مولانا نے ان باتوں سے قطعِ نظر کس طرح اس کا جواز فراہم کردیا؟ غرض یہ کہ ٹی- وی کے پردے پر نشر ہونے والی صورت عورت کی ہو یا مرد کی،بہ ہر حال! وہ باعثِ فتنہ وفساد ہے اور اس صورتِ حال نے مردوں اور عورتوں دونوں کو غیر معمولی جذباتی ہیجان میں مبتلا کردیا ہے اور شہوانی جذبات کی ایک بھٹی ہے،جو سینوں میں بھڑکادی ہے اور یہ وہ حقائق ہیں ،جن کا کوئی صاحب ِ عقل و انصاف انکار نہیں کرسکتا ، پھر دیکھ لیا جائے کہ اس فتنہ وفساد کے باوجود کیوں کر اس پروگرام کو حدود ِجوازمیں داخل کیا جاسکتا ہے؟