ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
ٹی-و ی پر عورت نہ آئے، تو اس میں فتنے کا پہلو ختم ہوجاتا ہے اور اس طرح یہ حدودِ جواز میں داخل ہوجاتا ہے، حتی کہ ایک معاصر عالم مولانا’’ خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہٗ‘‘ نے بھی اس نظریے کو پیش کیاہے ؛چناں چہ وہ لکھتے ہیں : ’’ ٹی- وی پر ذی روح کی تصویر میں اگر نگیٹیو(Negative) لینے کے بعد اس کے ذریعے نشر کی جائیں ، تب تو اس کا حکم تصویر کا ہے اور اگربراہِ راست ٹیلی کاسٹ (Tele cast) کیا جائے کہ فلم بنائی ہی نہ جائے، تو یہ عکس ہے اوراس وقت درست ہے ،جب کسی خاتون کو سامنے نہ لایا جائے۔(۱) مگر مولانا کی یہ بات مخدوش ہے؛ کیوں کہ ’’ خاتون کو سامنے نہ لایا جائے‘‘ کی قید غالباً اسی لیے ہوگی کہ مرد اس کو دیکھ کر فتنے میں مبتلا ہوں گے، تو غور کیجیے کہ اگر پردے پر مرد کو لایا جائے، تو کیا اس کو دیکھ کر عورتیں فتنے میں مبتلا نہ ہوں گی؟ ظاہر ہے کہ جس طرح عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث ہے، مرد بھی عورت کے لیے فتنے کا سبب ہے ، پھر دونوں میں تفریق کی کیا وجہ ؟ خود حدیث میں ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم ص( ایک نابینا صحابی) دربار ِرسالت میں حاضر ہوئے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت ام سلمہ وحضرت میمونہ رضي اللّٰہعنہما موجود تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں عورتوں کو ان نا بینا صحابی سے پردہ کرنے کا حکم دیا ، انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ صحابی تو اندھے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم دونو ں بھی اندھی ہو ،کیا تم دیکھتی نہیں ؟(۱) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ------------------------- (۱) جدید فقہی مسائل : ۲۰۲ (۱) الترمذي : ۲ ؍۱۱۴، أبوداؤد، النسائي، البیہقي