ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
’’لہو الحدیث ‘‘ کا نتیجہ ہے؛ اس لیے یہ آیت مسلمانوں کے عمل پر بھی منطبق ہوتی ہے؛ البتہ قرآن میں ذکر کردہ گندے مقاصد نہ ہونے کی وجہ سے عذاب میں بھی کمی ہوگی؛ علامہ ثعالبی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : والٓایۃ باقیۃ المعنیٰ في الأمۃ غا برالدھر ؛ لٰکن لیس لیضلوا عن سبیل اللّٰہ ولا لیتخذوا آیات اللّٰہ ھزواً ولا علیھم ھذا الوعید بل لیعطلوا عبادۃ ویقطعوا زمناً بمکروہ۔(۱) ترجمہ: یہ آیت امت میں اپنے معنے کے لحاظ سے باقی ہے؛ لیکن اس لیے نہیں کہ وہ (مسلمان ) لوگ ( لہو الحدیث سے ) اللہ کے راستے سے گمراہ کرتے ہیں اور نہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات کو ٹھٹا بناتے ہیں اور نہ ان پر وعید ہے ؛بل کہ اس لیے کہ وہ (اس لہو الحدیث کی وجہ سے)عبادت کو معطل کرتے ہیں اور ایک زمانہ ناپسند کام میں گذارتے ہیں ۔ غرض یہ کہ ٹی- وی کے یہ پروگرام اللہ سے غفلت ،اس کی عبادت سے لاپرواہی اور وقت کی بربادی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس آیت کا مصداق ہیں ۔ ۲-دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’ لیضل ‘‘ میں ’’ لام ‘‘ تعلیل کے لیے نہیں ہے؛ بل کہ یہ ’’لامِ عاقبت‘‘ ہے ،جو کسی چیز کا انجام بتانے کے لیے آتا ہے؛ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوا کہ’’ بعض لوگ لہو الحدیث خریدتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ (خود تو گمراہ ہوتے ہی ہیں ) اوروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور اللہ کی آیات کو مذاق بناتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اس معنے کے لحاظ سے یہ آیت زیرِبحث لوگوں پر منطبق ------------------------- (۱) تفسیر ثعالبي : ۳؍۳۰