روایتوں میں ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول ﷺنے عرفات میں امت کے لیے بہت کچھ مانگا تھا، سوائے ایک دعا کے اللہ نے ساری دعائیں قبول فرمالی تھیں، لیکن مزدلفہ میں آپ نے خوب گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں کیں اور اسی دعا کو پھر مانگا تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے وہ دعا بھی قبول کرلی اور آپ امت کے انجام سے بہت ہی خوش اور مطمئن ہوگئے اور شیطان کو آپ نے دیکھا کہ بہت ہی مایوس ہو کراپنے سرپر مٹی ڈال رہا ہے۔ [ابن ماجہ : ۳۰۱۳، عن عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ ]
لہٰذا اس رات کی بھی قدر کرناہے، لہٰذا جتنا ہوسکے عبادت میں وقت گذارے پھر تھوڑا بہت آرام بھی کرلیں اور صبح صادق سے پہلے اٹھ کر ذکر و دعا میں مصروف رہیں۔ فجر کی نماز اول وقت میں پڑھ لیں اس کے بعد سورج نکلنے کے قریب تک پھر ذکر ودعا میں مشغول ہو جائیں۔
فجر کے بعد سے سورج نکلنے کے قریب تک تھوڑی دیر مزدلفہ میں ٹھہرنا حج کا واجب ہے، لہٰذا فجر سے پہلے ہرگز مزدلفہ سے نہ نکلیں، ورنہ واجب چھوٹ جائیگا اور دم دینا پڑیگا۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ہر حاجی مزدلفہ سے ستر کنکریاں بھی چن لے۔