حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حاجی کی سفارش اس کے گھرانے کے چار سو آدمیوں کے بارے میں قبول ہوتی ہے اور حاجی اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیساکہ پیدائش کے دن تھا۔[مسند بزار:۳۱۹۶]
حج نہ کرنے پر وعید
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس اتنا خرچ ہو اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہوکر مرجائے یا نصرانی ہوکر مرے۔ [ترمذی : ۸۱۲، علی]
اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت پڑھی’’ وَلِلّٰہِ عَلیَ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ‘‘ [آل عمران:۹۷]
ترجمہ:- اللہ جل شانہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ بیت اللہ کا حج (فرض) ہے جو وہاں پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو اور جو منکر ہو تو (اللہ تعالیٰ کا کیا نقصان ہے) اللہ تعالیٰ تمام جہاں سے غنی ہے( ان کو کیا پرواہ؟)
شخص