۹… علامہ عبدالحکیم سیالکوٹیؒ (المتوفی ۱۰۶۷ھ) تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ونزولہ الی الارض واستقرارہ علیہا قد ثبت باحادیث صحیحۃ بحیث لم یبق فیہ شبہۃ لم یختلف فیہ احد (عبدالحکیم علی الخیالی ص۱۴۲)‘‘ {حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر نازل ہونا اور ان کا زمین پر متمکن ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہیں ہے اور کسی (مسلمان) نے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔}
یعنی اتنی اور اس قدر صحیح متواتر اور واضح احادیث سے اس کا ثبوت ہے کہ نہ تو اس میں کوئی شبہ رہا ہے اور نہ کسی مسلمان نے جو قرآن کریم، حدیث متواتر اور اجماع امت پر یقین رکھتا ہے اس میں اختلاف کیا ہے۔
۱۰… مشہور معتمد متکلم امام السفارینیؒ (محمد بن احمد بن سلیمان السفارینیؒ المتوفی ۱۱۸۸ھ) نے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الیٰ السمائ، حیات اور نزول پر کتاب وسنت کے واضح دلائل پیش کئے ہیں اور اس کے بعد اس پر اجماع امت کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں: ’’واما الاجماع فقد اجتمعت الامۃ علی نزولہ ولم یخالف فیہ احد من اہل الشریعۃ وانما انکر ذلک الفلاسفۃ والملاحدۃ ممن لایعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامۃ علی انہ ینزل ویحکم بہذہ الشریعۃ المحمدیۃ ولیس ینزل بشریعۃ مستقلۃ عند نزولہ من السماء وان کانت النبوۃ قائمۃ بہ وھو متصف بہا (شرح عقیدۃ السفارینیؒ ج۲ ص۹۰)‘‘ {اور بہرحال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر امت کا اجماع واتفاق ہے اور اس میں اہل اسلام میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہاں فلاسفہ اور ملحدوں نے اس کا انکار کیا ہے۔ جن کی بات کا کوئی اعتبار ہی نہیں ہے۔ امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے۔ لیکن آسمان سے نزول کے وقت وہ مستقل شریعت لے کر نہیں آئیںگے۔ گو وصف نبوت کے ساتھ وہ متصف ہی ہوںگے۔ مگر فیصلے وہ شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف تحیہ وسلام) کے مطابق ہی کریںگے۔}
اس کو قارئین کرام ایسا سمجھیں جیسا کہ ایک ملک کا صدر اور سربراہ جب کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے یا ملک کے کسی ایک صوبے کا گورنر جب ملک کے دوسرے صوبے میں جاتا ہے تو وہ صدر اور گورنر ہی ہوتا ہے۔ مگر دوسرے ملک اور دوسرے صوبہ میں وہ اس ملک اور اس صوبہ کا صدر اور گورنر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کو وہاں کے باشندوں کی طرح وہاں کے آئین اور قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے اور جب تک وہ اپنے اپنے عہدہ پر فائز ہیں معزول نہیں ہوتے تو ان سے