بعض متکلمین کے بعض احادیث کے تواتر میں شک سے مسئلہ پر قطعاً کوئی زد نہیں پڑتی۔ وہ بہرحال مسلم ہے۔
باب الاوّل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الیٰ السماء ان کی حیات اور پھر نزول من السماء قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ہم بنظر اختصار قرآن کریم سے صرف دو ہی دلیلیں عرض کرتے ہیں اور پھر ان کی معتبر اور مستند حضرات مفسرین کرامؒ سے باحوالہ تفسیریں نقل کرتے ہیں۔ غور وفکر کرنا قارئین کا کام ہے۔
پہلی دلیل
اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’ولما ضرب ابن مریم مثلا اذا قومک منہ یصدون (الزخرف:۵۷)‘‘ {اور جب عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کی مثال بیان کی جاتی ہے تو تیری قوم اس سے چلّانے لگتی ہے۔}
یعنی جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر آتا ہے تو عرب کے مشرکین خوب شور مچاتے اور قسم قسم کی آوازیں نکالتے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ پھر تین آیتوں کے بعد اﷲتعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترنّ بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم، ولا یصدّنکم الشیطان انہ لکم عدو مبین (الزخرف:۶۱)‘‘ {اور بے شک وہ نشان ہے قیامت کا سو اس میں شک مت کرو اور میرا کہنا مانو، یہی سیدھی راہ ہے اور ہرگز نہ روکے تم کو شیطان (مثلاً منکر نزول مسیح علیہ السلام) وہ تمہارا دشمن ہے صریح۔}
اس آیت کریمہ میں اﷲتعالیٰ نے لفظ انّ کے ساتھ جو تاکید کے لئے آتا ہے اور پھر لام مفتوحہ تاکید سے یہ بیان فرمایا ہے کہ بے شک البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی علامت اور نشانی ہے اور اس کے بارے ہرگز کوئی شک نہ کرنا اور میرے کہنے کو ماننا اور یہی نظریہ صراط مستقیم ہے۔ ہر ادنیٰ عربی دان بھی بخوبی اس آیت کریمہ میں ہر ہر جملہ کی تاکید کو سمجھ سکتا ہے کہ کتنی تاکیدات سے اﷲ تعالیٰ نے یہ مضمون اور حکم بیان فرمایا ہے اور پھر فرمایا کہ شیطان کے پھندے میں ہرگز نہ آنا اور حق ماننے سے نہ رکنا۔ شیطان تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کا یہی پختہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہے اور ضرور وہ قیامت سے پہلے آئیںگے اور یہی صراط مستقیم ہے۔ جس پر چلنا ہر مسلمان کا اسلامی فریضہ ہے اور اس کی مخالفت