اگرچہ وہ اہل قبلہ میں سے ہو اور اپنی ساری زندگی اس نے طاعات وعبادات میں گذار دی ہو۔}
علامہ ابو البقائؒ (المتوفی …ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’ولا نزاع فی اکفار منکر شیٔ من ضروریات الدین (کلیات ابی البقاء ص۵۵۴)‘‘ {جس شخص نے ضروریات دین میں سے کسی ایک چیز کا انکار کیا تو اس کی تکفیر میں کوئی نزاع نہیں ہے۔}
اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ (المتوفی ۱۰۲۴ھ): ’’در تکفیر آنہا جرأت نباید نمود ندتا زمانیکہ انکار ضروریات دینیہ ننمایند ورد متواترت احکام شرعیہ نکنند (مکتوبات امام ربانی ج۳ ص۳۸، ج۸ ص۹۰)‘‘ {اہل قبلہ کی تکفیر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ان کی تکفیر میں جرأت نہیں کرنی چاہئے۔ تاوقتیکہ وہ ضروریات دینیہ اور احکام شرعیہ کے متواترات کا انکار نہ کریں۔}
اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’اگر مخالف ادّلہ قطعیہ است یعنی نصوص متواترہ واجماع قطعی است اورا کافر باید شمرد (فتاویٰ عزیزی ج۱ ص۱۵۶)‘‘ {اگر ادّلہ قطعیہ یعنی نصوص متواترہ اور اجماع قطعی کا مخالف ہو تو اسے کافر ہی سمجھنا چاہئے۔}
ان تمام صاف اور صریح حوالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ جس طرح ضروریات دین میں سے کسی قطعی اور ثابت شدہ امر کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح اس کی تاویل بھی کفر ہے اور تاویل ایسے مؤول کو کفر سے نہیں بچاتی اور حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ وغیرہ بزرگوں کے حوالوں سے یہ بات بھی بالکل عیاں ہوگئی کہ کتاب وسنت متواترہ اور اجماع امت سے جو چیز ثابت ہو وہ قطعی اور ضروریات دین میں سے ہوتی ہے۔
اور بحمداﷲ تعالیٰ مسئلہ ختم نبوت کتاب وسنت کے روشن دلائل اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ بقدر ضرورت اسی پیش نظر مقالہ میں حوالے مذکور ہیں۔
نعمت اﷲ قادیانی کی افغانستان میں سنگساری
مرزاغلام احمد قادیانی کا ایک چیلہ نعمت اﷲ قادیانی، غازی امان اﷲ خاں مرحوم شاہ افغانستان کے دور میں افغانستان میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے گیا۔ وہاں کے جید علماء کرام اور غیور مسلمانوں نے اسے گرفتار کروایا اور اسلامی عدالت کی طرف سے اس کے سنگسار کرنے کا فیصلہ صادر ہوا۔ چنانچہ اس کو برسر عام سنگسار کیاگیا اور قادیانیت کے فتنہ بازوں کو پھر وہاں جانے کی جرأت ہی نہ ہوئی اور وہ علاقہ اس طرح قادیانیت کی نحوست سے محفوظ رہا۔ اس نعمت اﷲ کے