حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ: ’’ان اﷲ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (بخاری ج۱ ص۴۳۰، باب ان اﷲ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر، و ج۲ ص۶۰۴، باب غزوہ خیبر، سنن الکبریٰ ج۸ ص۱۹۷)‘‘ {بے شک اﷲتعالیٰ فاجر کے ذریعہ بھی اس دین کو تقویت پہنچا دیتا ہے۔}
اور ایک دوسری حدیث میں جو حضرت انسؓ سے مرفوعاً مروی ہے یوں آتا ہے۔ ’’سیشدد ہذا الدین برجال لیس لہم عند اﷲ خلاق (الجامع الصفیر ج۲ ص۳۶، وقال صحیح والسراج المنیر ج۲ ص۳۵۳، وقال حدیث صحیح)‘‘ {عنقریب اس دین کو ایسے مردوں کے ساتھ مضبوط کیا جائے گا جن کے لئے اﷲتعالیٰ کے نزدیک (ایمان وخیر کا) کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔}
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ باطل فرقوں میں سے کسی شخص کے قول وفعل سے دین اسلام کی تقویت تو ہوسکتی ہے۔ مگر اسلام کے کسی مسئلہ اور پہلو کی تائید وتقویت سے فاجر وملحد وزندیق کا ایمان واسلام اور تقویٰ ثابت نہیں ہوسکتا اور اس کے مؤمن ومسلم کہلانے سے وہ مؤمن ومسلم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اسلام کے قطعی عقائد سے اس کا انکار ہوتا ہے اور دل ایمان وایقان سے خالی ہوتا ہے ؎
سفر کی سمت کا کوئی تعین ہو تو کیسے ہو
غبار کارواں کچھ، راستہ کچھ اور کہتا ہے
محض نبوت کے زبانی اقرار سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا
حضرات فقہاء کرامؒ محدثین عظامؒ اور متکلمین ذوی الاحترام کے نزدیک ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے۔ ’’واما فی الشرع فہو التصدیق بما علم مجییٔ النبیﷺ بہ ضرورۃً تفصیلاً فیما علم تفصیلاً واجمالاً فیہا علم اجمالاً وہذا مذہب جمہور المحققین (فتح الملہم ج۱ ص۱۵۲، کتاب الایمان البحث الاوّل)‘‘ {شریعت میں ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس ضروری چیز کی تصدیق کی جائے۔ جس کو آنحضرتﷺ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ جو چیزیں تفصیلاً معلوم ہوں۔ ان کی تفصیلاً تصدیق ہو اور اور جو چیزیں اجمالاً معلوم ہوں۔ ان کی اجمالاً تصدیق ہو۔ یہی جمہور محققین کا مذہب ہے۔}
اس سے ایمان کا شرعی معنی واضح ہوگیا۔ نہ یہ کہ محض آنحضرتﷺ کی رسالت کے اقرار سے کوئی مسلمان ہوسکتا ہے۔ امام ابو محمد عبدالملک بن ہشام (المتوفی ۲۱۳ھ یا ۲۱۸ھ)