یعنی چونکہ مرزائیوں کی لاہوری جماعت نہ تو مرزاقادیانی کو نبی تسلیم کرتی ہے اور نہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہے۔ اس لئے جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے منشور کے رو سے لاہوری مرزائی مسلمان ہیں۔
نیا اور بالکل نرالا انکشاف
مودودی صاحب نے ۲۴؍اگست ۱۹۶۹ء کو مسجد اقصیٰ کے سانحہ کے متعلق مرکز جماعت اسلامی میں کارکنان جماعت کے ایک اجتماع کے موقع پر ایک تقریر کی جو زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ اس میں مودودی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ منحوس لمحہ ہماری زندگی میں پیش آیا۔ ستر پچھتر کروڑ مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور پھر بھی یہودیوں کی یہ ہمت ہوئی کہ ہماری تین مقدس ترین مسجدوں میں سے ایک کو آگ لگادیں۔ اس مسجد کو پھونک ڈالیں جسے اسلام میں قبلہ اوّل ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس کی طرف رخ کر کے رسول اﷲﷺ نے ساڑھے ۱۴؍برس تک نماز پڑھی ہے۔‘‘
(سانحہ مسجد اقصیٰ باردوم اکتوبر ۱۹۶۹ء ص۲، شائع کردہ دفتر ترجمان القرآن اچھرہ لاہور)
مسجد اقصیٰ کا سانحۂ عالم اسلام کے لئے ایک اندوہناک اور انتہائی طور پر پریشان کن واقعہ ہے۔ جس پر ہر صاحب دل مسلمان تاہنوز خون کے آنسو بہا رہا ہے اور گریبان میں منہ ڈال کر یہ سوچ رہا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور اہل اسلام پر کیا گذری؟ اور غالباً ہر مسلمان بے بسی کی حالت میں زبان حال سے یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ؎
رو مجھے اے مسجد اقصیٰ تجھے روتا ہوں میں
اور حقیقت بھی یہ ہے کہ تاریخ کے اس عظیم حادثہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور مودودی صاحب نے بھی اس کا رونا رویا ہے۔ لیکن مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ قبلہ اوّل (یعنی مسجد اقصیٰ) کی طرف آنحضرتﷺ نے ساڑھے ۱۴؍برس رخ کر کے نماز پڑھی۔ حدیث وتاریخ اور علمی اعتبار سے بالکل نیا انکشاف ہے اور سخت حیرت ہے کہ انہوں نے جماعت کے مرکزی کارکنوں سے یہ خطاب کیا ہے اور کسی نے بھی مودودی صاحب کی اس علمی غلطی اور سراسر بے بنیاد تحقیق پر تنقید نہیں کی۔ اس سے بڑھ کر شخصیت پرستی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور مقام حیرت ہے کہ اس جماعت کے قلم اور زبان سے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، حضرات صحابہ کرامؓ، ائمہ دینؒ اور سلف صالحینؒ میں سے کوئی بھی جرح وتنقید سے محفوظ نہیں رہا اور ان کے بے باک قلم اور بے لگام