مسیلمہ (بن حبیب وقیل ابن ثمامہ ابو ثمامہ الکذاب) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ’’واحل لہم الخمر والزنا ووضع عنہم الصلوٰۃ وھو مع ذلک یشہد لرسول اﷲﷺ بانہ نبی (سیرت ابن ہشام ج۲ ص۵۷۷)‘‘ {مسیلمہ نے ان کے لئے شراب وزنا کو حلال کیا اور نمازوں کی چھٹی دے دی۔ مگر بایں ہمہ وہ آنحضرتﷺ کے بارے یہ شہادت دیتا تھا کہ آپؐ نبی ہیں۔}
آنحضرتﷺ کی شریعت میں شراب وزنا کی حرمت قطعی ہے۔ ان کو حلال کرنا اور نمازوں کو معاف کرنا جن کا پڑھنا اور ادا کرنا آپؐ کی شریعت میں دین کی بنیاد ہے۔ قطعاً کفر ہے پھر محض زبانی طور پر آپؐ کی نبوت کے اقرار کرنے سے مسیلمہ کذاب کو کیا فائدہ ہوا؟
اور وہ کفر سے کیونکر بچ سکا اور پھر خود نبوت کا دعویٰ کرنے سے وہ غضب علیٰ غضب اور کفر فوق کفر کا مرتکب ہوا۔ (عیاذا بااﷲ تعالیٰ)
شیخ الاسلام حافظ احمدؒ بن عبدالحلیمؒ ابن تیمیہؒ (المتوفی ۷۲۸ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’قد اجمع المسلمون ان من سبّ اﷲ تعالیٰ او سبّ رسولہﷺ اورفع شیئًا مما انزل اﷲ اوقتل نبیا من انبیاء اﷲ انہ کافروان کان مقرًا بما انزل اﷲ تعالیٰ (الصارم المسلول ص۵۱۴)‘‘ {تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع واتفاق ہے کہ جس شخص نے اﷲتعالیٰ یا جناب رسول اﷲﷺ کو برا کہا یا اﷲتعالیٰ کے نازل کردہ احکام میں سے کسی کو رد کر دیا یا اﷲتعالیٰ کے نبیوں میں سے کسی نبی کو شہید کر دیا۔ تو وہ شخص کافر ہے۔ اگرچہ زبانی طور پر وہ ’’ما انزل اﷲ تعالیٰ‘‘ کا مقر ہو۔}
یہ تمام صریح حوالے اس پر دال ہیں کہ صرف زبانی طور پر اسلام کا دعویٰ کرنا یا آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کا اقرار کر لینا ہی مسلمان کہلانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ بلکہ تمام ضروریات دین کا یقین واذعان کرنا ضروری ہے۔ لاریب فیہ!
مرزاقادیانی کے دعوائے نبوت کی حقیقت اور ضرورت
آج سے تقریباً دو سوسال پہلے انگریز قوم نے کئی سمندر پار سے تاجرانہ صورت میں آکر سونے کی چڑیا (ہندوستان) پر مکارانہ اور غاصبانہ قبضہ کر لیا اور مجاہدین اسلام اور حریت پسندوں سے متعدد معرکوں میں مقابلہ بھی کیا۔ جن میں معرکہ شاملی وغیرہ بھی شامل ہے۔ مگر اپنے تدبر اور عیاری سے اپنا اقتدار اور تسلط پورے ہندوستان پر جما لیا اور اس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوگئی۔ اس دور میں ہندوستان میں علمی عملی اور سیاسی طور پر مسلم شخصیت حضرت مولانا شاہ