کے دین کی کوئی انتہاء نہ ہوگی۔ یہاں مسیا سے مراد سرکار دوعالمﷺ ہیں۔
نبوت کی دوسری دلیل
انبیاء سابقین کا احترام اور کتب سابقہ کی تصدیق ہر سچے نبی پر ضروری ہے کہ انبیائے کرام کی تعظیم کریں۔ اگر انبیاء کی تعظیم نہ کرے تو سمجھا جائے گا کہ وہ جھوٹا ہے اور فریبی ہے رسول نہیں ہوگا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
۱… ’’قولوا آمنا باﷲ وما انزل الینا وما انزل الیٰ ابراہیم واسماعیل واسحق یعقوب والاسباط وما اوتیٰ موسیٰ وعیسیٰ وما اوتی النبیون من ربہم لا نفرق بین احد منہم ونحن لہ مسلمون فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اہتدوا وان تولوا فانماہم فی شقاق فسیکفیکہم اﷲ وھو السمیع العلیم (البقرہ:۱۳۶،۱۳۷)‘‘ {(مسلمانو) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے اور جو (کتابیں) موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو عطا ہوئیں ان پر جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی خدائے واحد کے فرمانبردار ہیں۔ تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیںگے اور اگر منہ پھیر لیں (نہ مانیں) وہ (تمہارے) مخالف ہیں۔ ان کے مقابلہ میں تمہیں خدا کافی ہے۔ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔} مذکورہ بالا آیت میں تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔ ان انبیاء علیہم السلام میں خصوصیت سے عیسیٰ علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ذکر کر کے اشارہ کر دیا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی موسیٰ علیہ السلام کی طرح برگزیدہ نبی ہیں۔
’’لا نفرق بین احد منہم‘‘ سے اشارہ کر دیا کہ بعض پیغمبروں کو ماننا بعض کو نہ ماننا اور تفریق بین الانبیاء کرنا بے ایمانی اور کفر ہے۔
۲… ’’مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومہیمنا علیہ (المائدہ:۴۸)‘‘ قرآن پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور ان کے مضامین ضروریہ کا محافظ ہے۔ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کے لئے ضروری ہے کہ انبیائے سابقین کی کتابوں اور صحیفوں پر بلا امتیاز سب پر ایمان لائیں۔ سب کا احترام کریں۔