اور ایک روایت میں ہے: ’’الا ان عیسیٰ بن مریم علیہما السلام لیس بینی وبینہ نبی ولا رسول الا انہ خلیفتی فی امتی من بعدی (مجمع الزوائد ج۸ ص۲۰۵)‘‘ {خبردار بے شک میرے اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے درمیان اور کوئی نبی اور رسول نہیں آیا۔ واضح ہو کہ بے شک وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہوںگے۔}
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنحضرتﷺ کی آمدکی ’’ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ کے مبارک الفاظ سے بشارت دی تھی اور مخلوق کو آپ کی تصدیق اور اتباع کی دعوت بھی دی تھی۔ اس لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آپؐ کا گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا ان کا آنا اور آسمان سے نازل ہونا ضروری ہے۔ (محصلہ مع تغیر ہامش التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص۹۴) تلک عشرۃ کاملۃ!
الباب الثالث
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر غلط استدلال اور اس کا رد
قارئین کرام! پوری تفصیل کے ساتھ پڑھ چکے ہیں کہ قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت کے قطعی اور یقینی دلائل اور براہین سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الیٰ السماء ان کی حیات اور نزول الیٰ الارض ثابت ہے۔ اب اس باب میں آپ بعض کم فہم کج بحث ضدی اور نہایت ہی سطحی ذہن رکھنے والے ملاحدہ اور زنادقہ کا استدلال اور اس کا رد بھی ملاحظہ کرلیں۔ کیونکہ تقابل سے ہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ (آل عمران:۵۵)‘‘ {اور جب اﷲتعالیٰ نے فرمایا۔ اے عیسیٰ (علیہ السلام) میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں۔}
ملحد یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس نص قطعی میں متوفیک کا جملہ ہے اور اس کا معنی وفات ہے اور مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے وفات دیتا ہوں اور تجھے (یعنی تیری روح کو) اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور یہ ملحدین کہتے ہیں کہ اس کا یہی معنی ترجمان القرآن حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے کیا ہے۔ چنانچہ (بخاری ج۲ ص۶۶۵) میں ہے کہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’متوفیک ای ممیتک‘‘ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قطعی طور پر ثابت ہے۔