ہر معاملہ میں اپنی ہی رائے پر ناز کرنا شرعاً مذموم ہے
بلاشبہ ہر صاحب الرائے اور صائب الرائے کو غیر منصوص اور غیراجماعی مسائل میں اپنی رائے پر عمل کرنے کا حق ہے۔ لیکن سلف صالحینؒ کا دامن چھوڑ کر اور خود رائے بن کر پانچواں سوار بننا بھی کسی طرح مستحسن نہیں ہے۔
حضرت ابو ثعلبتہ الخشنیؓ جناب رسول اﷲﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ جس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: ’’بل اتمروا بالمعروف وتناھو عن المنکر حتیٰ اذا رأیت شحا مطاعا وھوًی متبعاً ودنیا مؤثرۃ واعجاب کل ذی رأی برأیہ فعلیک نفسک ودع امر العوام الحدیث (مواردالظمأن ص۴۵۸)‘‘ بلکہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔ یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخل کی اطاعت کی جاتی ہے اور خواہش کی پیروی کی جاتی ہے اور دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر رائے والا اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا ہے تو ایسے موقع پر اپنی جان کی فکر کرو اور عام لوگوں کا معاملہ چھوڑ دو۔
عام علماء کرام تو ’’فعلیک نفسک‘‘ کا معنی یہی کرتے ہیں کہ اس موقع پر جب کہ حالات ایسے نازک مرحلہ پر پہنچ جائیں۔ تم اپنی جان کی فکر کرو اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ لیکن سحبان الہند حضرت مولانااحمد سعید صاحب دہلویؒ جن کی ساری زندگی ظالم برطانیہ کے خلاف جہاد میں گذری ہے۔ وہ اس کا معنی یہ کرتے تھے۔ ’’فعلیک نفسک‘‘ ایسے موقع پر تم اپنی جان پر کھیل جاؤ اور لوگوں کا خیال نہ کرو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ بہرحال اس حدیث میں ’’وھوی متبعا‘‘ اور ’’اعجاب کل ذی رأی برأیہ‘‘ کی دو خصلتوں کا مذموم ہونا بھی واضح ہے۔ جس کا مفہوم ہے کہ ہر معاملہ میں آدمی اپنی خواہش اور اپنی پسند اور رائے پر ہی اصرار نہ کرے بلکہ دوسرے لوگوں کی معقول اور صحیح رائے کو اور علیٰ الخصوص صالحینؒ کی درست اور صائب رائے کو نظر انداز نہ کرے اور بحمد اﷲ تعالیٰ ہم خود بھی اور ہمارے اکابر بھی اسی پر کاربند ہیں۔ اﷲتعالیٰ سلف صالحینؒ کا دامن تھامنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔ برخلاف ان دیگر باطل فرقوں اور ان کے سربراہوں کی طرح مودودی صاحب کو نارسا اور غیر صائب رائے پر ناز ہے اور اس کو کسی قیمت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پرانے رفقاء میں حضرت مولانا امین احسن صاحب اصلاحی اور حضرت مولانا