مجاہدین اسلام کو (جن کے پاس دس یا بارہ ہزار گھوڑے تھے، اونٹ وغیرہ اس کے علاوہ تھے) لے کر غزوۂ تبوک کے سفر پر روانہ ہونے لگے تو حضرت علیؓ کو اہل خانہ کی حفاظت ونگرانی کے لئے (مدینہ منورہ میں آپؐ نے اپنا نائب اس موقع پر حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ المتوفی ۴۳ھ کو مقرر کیا تھا) خلیفہ بنایا۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے طور پر جاتے ہوئے اپنی اس مختصر سی غیر حاضری میں حضرت ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنا نائب بنایا تھا۔ حضرت علیؓ رومیوں کے خلاف لڑنے کے بڑے مشتاق تھے۔ دل میں کچھ غمگین ہوئے اور فرمایا کہ آپؐ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑتے ہیں؟ اس موقعہ پر آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ جیسا کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص (المتوفی ۵۵ھ) فاتح ایران کی روایت میں ہے: ’’قال الاترضٰی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لیس بعدی نبی (وفی روایۃ لا نبی بعدی) (بخاری ج۲ ص۶۳۳، باب غزوہ تبوک وھی غزوۃ العسرۃ، مسلم ج۲ ص۲۷۸، باب فضائل علی بن ابی طالب)‘‘ {کیا تو اس پر راضی نہیں کہ (اس نیابت میں) تیری اور میری وہ نسبت ہو جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔}
اس روایت میں بھی اس کی تصریح ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی اور نہ کوئی نبی آسکتا ہے۔
۸… حضرت ابوامامۃ الباہلیؓ (صدی بن عجلان المتوفی ۸۶ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں آنحضرتﷺ سے سنا آپؐ نے فرمایا: ’’یا ایہا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم (رواہ الطبرانی ورجال احد الطریقین ثقات وفی بعضہم ضعف، مجمع الزوائد ج۸ ص۲۶۳)‘‘ {اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے۔}
ان تمام صحیح وصریح احادیث سے ختم نبوت کا مسئلہ واضح سے واضح تر ہوگیا ہے۔ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی قطعاً کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ البتہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔ منکر تو یہی کہے گا ؎
آنے دو اسے جس کے لئے چاک کیا ہے
ناصح سے گریباں کو سلانے کے نہیں ہم
اجماع امت
جس طرح ختم نبوت کا قطعی عقیدہ قرآن کریم، احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے۔