موجود ہیں اور ان تمام صریح عبارات کی تاویل آفتاب نیمروز کے انکار کے مترادف ہے۔ لیکن تحریک ختم نبوت کے دور میں جب مسلمانوں اور مرزائیوں کے اختلاف کی ہائیکورٹ میں چھان بین شروع ہوئی تو مرزائیوں کے وکیل نے اپنے اکابر کی تمام واضح عبارات سے چشم پوشی کرتے ہوئے پینترا بدل کر عدالت میں جو بیان دیا وہ یہ ہے۔
الف… عدالت نے سوال کیا تھا کہ جو مسلمان مرزاقادیانی کو نبی نہیں مانتے کیا وہ مؤمن اور مسلم ہیں؟ جواب میں وہ کہتے ہیں: ’’کسی شخص کو حضرت بانی ٔ سلسلۂ احمدیہ (مرزاغلام احمد قادیانی) کو نہ ماننے کی وجہ سے غیر مسلم نہیں کہاجاسکتا۔‘‘ (قادیانی مسئلہ از ابوالاعلیٰ مودودی ص۷۵)
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل کے ہائیکورٹ کے اس بیان کے پیش نظر مرزاقادیانی کو نبی نہ تسلیم کرنے والے بھی مسلمان ہیں اور جماعت اسلامی کے منشور کی عبارت یہ بتاتی ہے کہ جو شخص مرزاقادیانی کی نبوت پر ایمان نہ لانے والوں کو کافر قرار دیتے ہوں وہ غیر مسلم اقلیت ہے اور عدالت میں احمدیوں کے وکیل کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ وہ غیر احمدیوں کو کافر نہیں کہتے۔ لہٰذا قادیانی مرزائی مسلمان قرار پائے۔ ’’معاذ اﷲ لا حول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ اور نیز اس سے معلوم ہوا کہ وہ عقیدہ کے رو سے کافر نہیں۔
لاہوری مرزائی
قادیانیوں کے وکیل کے عدالت میں اس بیان سے جماعت اسلامی کے منشور کی روشنی میں ان کا مسلمان ہونا تو واضح بات ہے۔ لیکن اس سے واضح تر بات لاہوری مرزائیوں کے مسلمان ہونے کی ہے۔ کیونکہ وہ مرزاقادیانی کو نبی نہیں تسلیم کرتے بلکہ مجدد مانتے ہیں اور جماعت اسلامی کے منشور کی یہ عبارت ان کو مسلمان قرار دیتی ہے۔ معمولی اردو دان بھی اس سے یہی سمجھتا ہے اور یہی سمجھے گا اور خود لاہوری مرزائیوں نے اس سے یہی سمجھا ہے اور مودودی صاحب کا ایک گونہ شکریہ ادا کیا ہے اور ان کی اس سلجھے ہوئے فتویٰ پر تعریف کی ہے۔ چنانچہ لاہوری مرزائیوں کے ہفت روزہ اخبار (پیغام صلح مورخہ ۲۵؍مارچ ۱۹۷۰ء بمطابق ۱۶؍محرم الحرام ۱۳۹۰ھ ص۳ کالم۲) میں اکثریت واقلیت کا سوال کا عنوان قائم کر کے اس میں یہ بھی لکھا ہے: ’’مودودی صاحب نے جن لوگوں کو اپنے منشور میں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا ذکر کیا ہے وہ اپنے عقائد کی وجہ سے (کہ مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں) اس کے مستحق قرار دئیے گئے اور یہ امر موجب خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور اس شق میں شامل نہیں ہوسکتی۔ اس بارہ میں مودودی صاحب کا رویہ قابل تعریف ہے۔‘‘ (انتہیٰ بلفظہ)