طریقہ پر محو گفتگو ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو نبی کہا جاتا ہے اور نبی کے معنی راستہ کے بھی ہیں۔ نبی کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ تک رسائی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ وصول الی اﷲ تعالیٰ کا راستہ بھی ہوا۔
(ملاحظہ ہو نبراس ص۱۵)
اور بعض علماء عربیت کی اصطلاح میں رسول اس کو کہتے ہیں جس کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مستقل کتاب وشریعت عطاہوئی ہو۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کہ صاحب تورات اور صاحب شریعت تھے اور نبی وہ ہوتا ہے جس کو نبوت تو ملی ہو مگر وہ صاحب کتاب وصاحب شریعت نہ ہو۔ بلکہ وہ صاحب کتاب وصاحب شریعت رسول کا معاون ووزیر ہو۔ جیسا کہ حضرت ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے جب آنحضرتﷺ کا منصب بیان فرمایا تو لفظ رسول سے ولکن رسول اﷲ یعنی اس دوسری اصطلاح کے مطابق آپؐ صاحب کتاب وصاحب شریعت ہیں اور جب لفظ خاتم کا مضاف الیہ بیان کیا تو لفظ النبیین ذکر فرمایا۔ یعنی اس دوسری اصطلاح کے مطابق آپ غیر تشریعی نبوت کے بھی خاتم ہیں۔ اگر اس مقام پر خاتم الرسل کا جملہ ہوتا تو اس اصطلاح کے موافق شبہ کرنے والے یہ کہہ سکتے تھے کہ آپؐ تو رسل کے خاتم ہیں اور رسول وہ ہوتا ہے جو صاحب کتاب وصاحب شریعت ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے بعد غیر تشریعی نبی آسکتا ہے اور آپ غیر تشریعی نبوت کے خاتم نہیں ہیں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنی محکم اور معجز کتاب میں اس باطل شبہ کی گنجائش ختم کردی اور واضح کردیا کہ آپؐ تشریعی نبوت تو کیا غیر تشریعی نبوت کے بھی خاتم ہیں۔ وخاتم النبیین آپؐ کے آنے سے وہ وعدہ پورا ہوگیا جس کی انتظار تھی:
نوائے عندلیب آئی ہوائے مشکبار آئی
سنبھل اے دل ذرا تو بھی سنبھل کامل بہار آئی
خاتم کا معنیٰ
لفظ خاتم اسم آلہ کا صیغہ ہے جس کے معنی مہر کے ہیں۔ جس طرح لفافہ اور بنڈل وغیرہ میں کوئی چیز رکھ کر اسے بند کرکے اس پر مہر لگادی جاتی ہے تو کوئی چیز مہر توڑے بغیر نہ تو اس میں رکھی جاسکتی ہے اور نہ نکالی جاسکتی ہے۔ بعینہ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی آمد سے قصر نبوت مکمل ہوگیا اور نبوت کا دروازہ بند اور سیل ہوگیا اور اس پر مہر لگ گئی۔ اب بغیر مہر توڑے نہ اسے کوئی کھول سکتا ہے اور نہ اندر داخل ہوسکتا ہے۔ یہی ختم کا معنی ہے اور یہی اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور اسی پر اﷲ تعالیٰ ہمیں قائم رکھے: