کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی ہی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کاذب کی عمر نہیں ہوتی۔ آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی ہی میں ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے۔ تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔ اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشین گوئی نہیں بلکہ محض دعاء کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔‘‘
مرزاقادیانی نہایت لجاجت سے دعاء مانگتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے۔ اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین! ’’ربنا افتح بیننا وبین قومنا باالحق وانت خیر الفاتحین۰ آمین‘‘ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ الراقم! عبدالصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود، عافاہ اﷲ وایدہ مرقومہ یکم ربیع الاوّل ۱۳۳۵ھ، مطابق ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ!‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
مرزاچونکہ مفسد وجھوٹا تھا اور مولوی ثناء اﷲ صادق اور سچے تھے۔ اس لئے مرزاقادیانی اپنی دعاء کے مطابق مولوی ثناء اﷲ کی زندگی ہی میں مرزاقادیانی کے پسندیدہ مرض ہیضہ میں مرزا ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں انتقال کر گئے اور مولوی ثناء اﷲ مرحوم دوسری جنگ عظیم کے بعد تک زندہ رہے۔ مرزاقادیانی کی پرحسرت موت کی خبر مرزا کے خاص اخبارات کے ذریعے:
وفات مسیح
’’برادران! جیسا کہ آپ سب صاحبان کو معلوم ہے کہ حضرت امامنا ومولانا حضرت مسیح موعود مہدی موعود مرزاقادیانی کو اسہال کی بیماری بہت دیر سے تھی اور جب آپ کوئی دماغی کام زور سے کرتے تھے۔ حضور کو یہ بیماری بسبب کھانا نہ ہضم ہونے کے ہو جایا کرتی