معراج جسمانی پر اجماع ہوچکا تھا۔ لیکن اگر کسی وقت سائنس کی جدید تحقیقات اور نئے فلسفہ کے زور میں آکر اس کے خلاف اجماع ہو جائے تو کیا خرابی ہے؟ اور ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ لیکن کیا کیا جائے کہ خود مرزاقادیانی ہی اس کی بھی ناکہ بندی کر چکے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص بعد صحابہ کرامؓ کسی مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ کذاب ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۴۱، خزائن ج۲۲ ص۴۴)
اب کسی کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع صحابہ کرامؓ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کذاب بنے؟ اور سلف سے روگردانی کرے۔ جو خلف کے لئے بطور وکیل کے تھے۔
’’قد یصدق الکذوب‘‘ کے قاعدہ کے پیش نظر مرزاقادیانی کا یہ ارشاد بالکل بجا اور صحیح ہے کہ صحابہ کرامؓ کے بعد اجماع کا دعویٰ کرنے والا کذاب ہے۔ اس کا مطلب اس کے بغیر اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس مسئلہ پر قرآن کریم کی نصوص قطعیہ موجود ہوں اور متواتر حدیثیں بھی موجود ہوں اور لطف یہ ہے کہ اس پر صحابہ کرامؓ کا اتفاق واجماع بھی قائم ہوچکا ہو۔ اب اس کے خلاف کوئی اور متوازی اور متصادم عقیدہ اور نظریہ قائم کرنا کون سا ایمان ہے؟ اور اس میں فوزوفلاح کی کون سی صورت مضمر ہوسکتی ہے؟ ممکن ہے اس نظریہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ ؎
نگاہ شوخ اب کچھ شرمگیں معلوم ہوتی ہے
چوتھا باب
ہم نے معراج جسمانی کے اثبات پر جو دلائل ہدیہ ناظرین کئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی اور دلیل کی ضرورت تو محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ کا ہر پہلو واضح سے واضح تر ہو جائے۔ اس لئے چند احادیث پیش کرنا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
۱… آنحضرتﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حطیم میں تھا کہ معراج جسمانی کا واقعہ سن کر مشرکین ہر طرف سے امڈ آئے اور انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ نشانیاں اور علامتیں پوچھیں۔ مجھے وہ نشانیاں معلوم نہ تھیں۔ مجھے اس وقت اتنی پریشانی لاحق ہوئی کہ زندگی بھر کبھی ایسی پریشانی لاحق نہ ہوئی تھی۔ اتنے میں حق تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے بیت