قرار دیتے ہیں۔ مگر صد افسوس تو اس پر ہے کہ نئے ٹائپ کے متجددان اکابر کی مساعی کو جن کی تمام زندگی ہی رضائے الٰہی اور دین حق کی خدمت میں گذر چکی ہے خاک میں ملانے کے درپے ہیں۔ ’’فالیٰ اﷲ المشتکی‘‘
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دئیے
پیدا کئے فلک نے تھے جو خاک چھان کے
اور بحمداﷲ تعالیٰ اس پرفتن دور میں بھی جس میں سامراجیت نیشنلزم، کمیونزم اور سوشلزم وغیرہ کے کافرانہ اور باطل نظام سمندر کی تلاطم خیز موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ہر طرف سے ملک خداداد پاکستان پر یلغار بول رہے ہیں۔ بلکہ بعض ہم پر ہماری بدقسمتی سے مسلط بھی ہیں۔ ہم قرآن وسنت کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ کو معیار حق تسلیم کر کے تفسیر وحدیث کے پرانے ذخیرہ پر اعتماد کرتے ہیں اور سلف صالحینؒ کے دامن سے وابستہ ہیں۔ تمہیں اس جہاں میں حق ہے جو چاہو کرو ؎
وہ تیری گلی کی قیامتیں کہ لحد کے مردے اکھڑ گئے
یہ میری جبین نیاز ہے کہ جہاں دھری تھی دھری رہی
مودودی صاحب کے قائم کردہ اصول کے تحت ان سے چند سوالات
جناب سیدابوالاعلیٰ مودودی نے برائے نام ایک اصلاحی جماعت کے چند ارکان کو گناہ کبیرہ پر تکفیر کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب سے پہلے نصیحت کرتے ہوئے ایک ضابطہ بیان کیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کو بلفظہ نقل کر دیں۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’تحقیق کرنے سے مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ آپ کی جماعت میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو دین کا صحیح علم اور تفقہ رکھتا ہو اور اس کا ثبوت خود ان مسائل کی نوعیت سے بھی ملاجن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے۔ یہ مسائل خود بھی یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کو پیدا کرنے والا ذہن کتاب وسنت رسول اﷲ میں نظر نہیں رکھتا۔ اب اگر میں یہ کہوں تو اس پر برا نہ مانا جائے بلکہ اسے اس حق نصیحت کی ادائیگی سمجھا جائے جو ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان پر واجب ہے کہ علم کے بغیر دین کے مسائل میں رائیں قائم کرنا اور ان کو دین قرار دے کر انفرادی یا اجتماعی زندگی کے لئے اصول بنالینا خود سب سے بڑا فسق اور تمام کبائر سے بڑھ کر کبیرہ ہے۔ اس لئے کہ ہم اگر مسلمان ہو سکتے ہیں تو اس دین پر ایمان لاکر اور اس کی پیروی کر کے ہی ہوسکتے ہیں۔