کرنا بھی واجب ہے اور وہ ایسا شخص ہے جو کفر کو چھپاتا اور اسلام کا اظہار کرتا ہے۔}
مرتد کی سزا
اسلام میں غیرمسلموں کے لئے تبلیغ وترغیب تو ہے۔ لیکن ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کے قاعدہ کے مطابق جبراً کسی کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ بدبخت اسلام سے پھر کر مرتد ہو جائے (العیاذ باﷲ تعالیٰ) تو وہ خدا تعالیٰ اور حضرت محمدﷺ کا باغی ہے۔ جب دنیا کی کسی حکومت میں باغی کسی رعایت کا مستحق نہیں بلکہ تختۂ دار پر لٹکائے جانے کے قابل ہے تو اﷲتعالیٰ کے باغی کے لئے رعایت کی گنجائش کیسے؟ بلکہ اگر قتل سے کوئی زیادہ سزا ہوتی تو وہ اس کا بھی مستحق ہے۔ مرتد کا قتل کرنا، قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
قرآن کریم
اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے بچھڑے کی عبادت کر کے ارتداد اختیار کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا: ’’فتوبوا الیٰ بارئکم فاقتلو انفسکم (البقرہ:۵۴)‘‘ {سو اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مار ڈالو اپنی اپنی جان۔}
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اکثر تفاسیر میں لکھا ہے کہ جن لوگوں نے گؤسالہ پرستی کی تھی اور جو مرتد ہوگئے تھے ان کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے اﷲتعالیٰ کے حکم کے مطابق قتل کرایا گیا۔ جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی اور ان لوگوں کے واقعہ کو بیان فرماکر اﷲتعالیٰ دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ’’وکذالک نجزی المفترین (الاعراف:۱۵۲)‘‘ {اور یہی سزا دیتے ہیں ہم بہتان باندھنے والوں کو۔}
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’اس سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا دنیا میں قتل ہے۔‘‘ اور الشہاب میں اس پر انہوں نے مفصل بحث کی ہے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
ممکن ہے کسی کو یہ شبہ ہو کہ قتل مرتدین کا یہ فیصلہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا حکم تھا اور ہماری شریعت اس کے علاوہ ہے، تو جواب یہ ہے کہ:
اوّلاً… تو ہمارا استدلال صرف ’’فاقتلوا انفسکم‘‘ کے جملہ سے ہی نہیں