آنحضرتﷺ کے بعد مدعی نبوت اور اس کو نبی ماننے والا واجب القتل ہے
نصوص قطعیہ، احادیث صحیحہ متواترہ اور اجماع امت سے مسئلہ ختم نبوت کا اتنا اور ایسا قطعی ثبوت ہے کہ اس میں تأمل کرنے والا بھی کافر ہے۔ بلکہ صحیح اور صریح احادیث کی رو سے مدعی نبوت اور اس کو نبی ماننے والا واجب القتل ہے۔ مگر یہ قتل صرف اسلامی حکومت کا کام ہے نہ رعایا اور افراد کا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ (المتوفی ۳۲ھ) سے روایت ہے: ’’قال قد جاء ابن النواحۃ وابن اثال رسولین لمسیلمۃ الی رسول اﷲﷺ فقال لہما رسول اﷲﷺ تشہد ان انی رسول اﷲ؟ فقالا نشہد ان مسیلمۃ رسول اﷲ فقال رسول اﷲﷺ آمنت باﷲ ورسلہ لو کنت قاتلاً رسولاً لقتلتکم قال عبداﷲ فمضت السنۃ بان الرسل لا تقتل فاما ابن اثال فکفانا اﷲ واما ابن النواحہ فلم یزل فی نفسی حتیٰ امکننی اﷲ تعالیٰ منہ (ابوداؤد والطیالسی ص۳۴ واللفظلہ ومستدرک ج۳ ص۵۳، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح ومشکوٰۃ ج۲ ص۳۴۷، مسند احمد ج۱ ص۳۹۰، ونحوہ فی الدارمی ص۳۳۲ طبع ہند)‘‘ {وہ فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے دو سفیر عبداﷲ بن نواحہ اور اسامہ بن اثال آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا کہ تم اس کی گواہی دیتے ہو کہ میں اﷲتعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اﷲتعالیٰ کا رسول ہے۔ (معاذ اﷲ) آپؐ نے فرمایا کہ میں اﷲتعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تمہیں قتل کر دیتا۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ (بین الاقوامی دستور اور) سنت یوں جاری ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا رہا۔ ابن اثال کا معاملہ تو اﷲتعالیٰ نے خود ہی اس کی کفایت کر دی۔ (اسامہؓ بن اثال بعد کو مسلمان ہوگئے تھے۔ البدایہ والنہایہ ج۶ ص۵۲) اور ابن نواحہ کا معاملہ میرے دل میں کھٹکتا رہا۔ یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے اس کی قدرت دی اور میں نے اسے قتل کروایا۔}
(ابوداؤد ج۲ ص۲۴ اور مستدرک ج۳ ص۵۲) میں ایک اور سند سے بھی یہ روایت مروی ہے جو اس حدیث کی صرف متابع اور شاہد ہے۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی کو نبی تسلیم کرنے والا واجب القتل ہے۔ رکاوٹ صرف یہ پیش آئی کہ اس وقت اسامہؓ بن اثال اور عبداﷲ بن نواحہ سفیر تھے اور سنت اور اس وقت کے بین الاقوامی دستور کے مطابق سفراء کو قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ تاکہ پیغام