ختم نبوت کتاب وسنت کی روشنی میں
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰الحمدﷲ وکفیٰ والسلام علی من لا نبی بعدہ۰امابعد!
جس طرح برحق اور آخری مذہب اسلام میں توحید ورسالت اور قیامت وغیرہ کے اصولی، بنیادی اور قطعی عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح اس امر پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ حضرت محمدﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں اور آپﷺ کی بعثت کے بعد تاصور اسرافیل علیہ السلام کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا اور نہ کسی کو آپﷺ کے بعد نبوت مل سکتی ہے۔ جو شخص ختم نبوت کا انکار یا تاویل کرے۔ تو وہ یقینا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کیونکہ جس طرح ضروریات دین میں سے کسی امر کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح اس کی تاویل بھی کفر ہے اور خوبصورت سے خوبصورت تاویل بھی کفر سے نہیں بچاسکتی۔ جیسا کہ عنقریب اس کے حوالے آرہے ہیں۔ انشاء اﷲ العزیز!
ختم نبوت کا عقیدہ قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
قرآن کریم
قرآن کریم کی متعدد آیات کریمات سے مسئلہ ختم نبوت ثابت ہے۔ مگر ہم اختصار کے پیش نظر صرف ایک ہی آیت کریمہ عرض کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ماکان محمدابا احمد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما(احزاب:۴۰)‘‘ {محمد (ﷺ) باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے۔ لیکن رسول ہے اﷲ (تعالیٰ) کا اور مہر سب نبیوں پر ہے اور ہے اﷲ (تعالیٰ) سب چیزوں کو جاننے والا۔}
اس آیت کریمہ کے شان نزول میں متعدد اور معتبر تفاسیر میں جو کچھ بیان ہوا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے محبت وشفقت اور پیار کی وجہ سے حضرت زید بن حارثہؓ (المتوفی۸ہجری) کو اپنا متبنّٰی لے پالک اور منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اور ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ بنت جحش (المتوفاۃ ۲۰ہجری) سے کردیا تھا۔ مگر اختلاف طبائع کی وجہ سے نباہ نہ ہوسکا اور حضرت زیدؓ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی۔ عدت گزر نے کے بعد آپﷺ نے ان سے نکاح کرنے کا ارادہ فرمایا۔ تاکہ حضرت زینبؓ کی بھی دلجوئی ہوجائے مگر دور جاہلیت کے نظریہ کے تحت (کہ وہ لوگ متبنّٰی کی بیوی سے وفات یا طلاق کے بعد عدت گزرچکنے کے بعد بھی نکاح حرام سمجھتے تھے۔ جیسا کہ اسلام میں صلبی اور رضاعی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے) لوگوں کے