معنوی کا انکار تو شاید کوئی مسلوب العقل اور اندھا ہی کرے گا۔ علاوہ بریں مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’النصوص یحمل علی ظواہر‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۴۰، خزائن ج۳ ص۳۹۰) کہ نصوص کو ظاہر معنی پر ہی حمل کیا جائے گا۔ یعنی بلاوجہ تاویل وغیرہ سے کام نہ لیا جائے گا اور حدیث معراج کا ایک ایک لفظ معراج جسمانی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں ؎
کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو
جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۷، خزائن ج۱۷ ص۷۸)
اور یہ مضمون مرزاقادیانی نے اپنی طرف سے نہیں کہا۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں: ’’میں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۷۸، خزائن ج۲۲ ص۲۹۱)
تو لابدی ہے کہ یہ بھی الہام خداوندی ہوگا۔ اب دیکھئے مرزاقادیانی کے امتی قرآن کریم، حدیث شریف پر اگر یقین نہیں رکھتے تو کیا مرزاقادیانی کی بات مانتے ہیں یا نہیں۔
نبی اپنا اپنا امام اپنا اپنا
ہم تو قرآن کریم کی نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ اور امت کے اجماع واتفاق کے پیش نظر اس امر پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ مالک الملک نے جناب امام الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کو بیداری کی حالت میں صرف ایک ہی رات میں جسم عنصری مبارک کے ساتھ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے آسمان اوّل پھر دوم حتیٰ کہ آسمان ہفتم تک اور جنت وغیرہ تک۔ غرضیکہ جہاں تک کہ اﷲتعالیٰ کو منظور تھا، سیر کرائی۔ اگر مرزاقادیانی اور ان کے اتباع کو اس کا یقین ہوتو فبہا، ورنہ وہ جانیں اور ان کا عقیدہ اور نظریہ۔ ہم تو پروردگار عالم اور آقائے نامدارﷺ کے حکم صریح پر اعتقاد اور ایمان رکھتے ہیں اور کسی مؤمن کو بھلا یہ زیبا بھی کب ہے کہ کلمہ پڑھنے کے بعد اپنی مرضی سے زندگی بسر کرے۔ یامن مانے عقیدوں پر یقین رکھ کر فلاح اخروی کا مستحق ہو اور سب سے اہم بات ہی فلاح اخروی ہے۔ مگر افسوس کہ وہ اب ہے کہاں؟ ’’الا ماشاء اﷲ‘‘
معلوم یہ ہوتا ہے وہی زیست تھی اپنی
جو چیز کہ اب تیری نگاہوں میں نہیں ہے
تیسرا باب
قرآن کریم اور صحیح احادیث سے معراج جسمانی کا ثبوت پہلے گذر چکا ہے۔ اب